کہانی گھر

دوسروں کی نقل

شہر کے اس پر رونق علاقے میں جہاں ہر طرف جدید عمارتیں اور چمک دمک تھی، ایک پرانی سی کوٹھی بھی تھی جو اپنے بزرگوں کے زمانے کی یاد دلاتی تھی۔ اس کوٹھی میں رحمت اللہ نامی ایک بزرگ اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ رحمت اللہ نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیکھا اور سیکھا تھا اور اب وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں زندگی کے سبق آموز واقعات سنایا کرتے تھے۔ ان کے پوتوں میں سے ایک جاوید بہت ہوشیار اور حاضر جواب تھا۔ اس کی عمر کوئی پندرہ سولہ برس تھی اور وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جاوید کی ایک عادت تھی جو رحمت اللہ کو بہت پریشان کرتی تھی اور وہ تھی دوسروں کی نقل کرنے کی عادت۔

جاوید ہر بات میں اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور حتیٰ کہ فلمی ستاروں کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا۔ اگر اس کا کوئی دوست نیا فون لے کر آتا تو جاوید اگلے ہی دن وہی فون خریدنے کی ضد کرتا۔ اگر کوئی نئے فیشن کے کپڑے پہن کر آتا تو جاوید کے لیے بھی وہی ڈیزائن ضروری ہو جاتا۔ اس کا خیال تھا کہ دوسروں جیسا بن کر ہی وہ معاشرے میں قابل قبول اور کامیاب ہو سکتا ہے۔ رحمت اللہ اکثر اسے سمجھاتے، "بیٹا، دوسروں کی نقل انسان کی اپنی پہچان ختم کر دیتی ہے۔ ہر شخص اللہ نے منفرد بنایا ہے۔ تمہاری اپنی ایک خوبی ہے، اپنی ایک پہچان ہے۔ اسے ضائع مت کرو۔" لیکن جاوید کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ وہ سمجھتا کہ دادا پرانے خیالات کے ہیں اور جدید دور میں نقل ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

ایک دن جاوید کا ایک نیا ہم جماعت اسکول میں آیا جس کا نام دانش تھا۔ دانش نہ صرف پڑھائی میں بہت تیز تھا بلکہ کھیل کود میں بھی اسے مہارت حاصل تھی۔ وہ ہاکی کا بہترین کھلاڑی تھا، کرکٹ میں تو اسے شہرہ ہوا تھا، اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ میوزک میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ دانش کے والد کا تبادلہ اس شہر میں ہوا تھا اس لیے وہ یہاں آ کر رہنے لگے تھے۔ جلد ہی دانش نے پورے اسکول میں اپنی ایک پہچان بنا لی۔ تمام اساتذہ اس کی تعریف کرتے اور طلبہ اس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھتے۔

جاوید نے جب دانش کی مقبولیت دیکھی تو اس کے دل میں حسد کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر طرح سے دانش جیسا بننے کی کوشش کرے گا۔ دانش جیسے کپڑے پہنے گا، اس جیسی چال چلے گا، اس جیسی باتیں کرے گا، حتیٰ کہ وہی کھیل کھیلے گا جن میں دانش مہارت رکھتا تھا۔ جاوید کو لگا کہ اگر وہ دانش کی نقل اتار لے گا تو اسے بھی وہی مقبولیت حاصل ہو جائے گی جو دانش کو حاصل تھی۔

پہلا قدم تو اس نے یہ اٹھایا کہ دانش جیسے ہی اسپورٹس شوز خریدنے کے لیے ماں باپ کے پیچھے پڑ گیا۔ اس کے بعد اس نے دانش والے ہیئر سٹائل بنوائے۔ دانش ایک خاص برانڈ کا بیگ استعمال کرتا تھا، جاوید نے وہی بیگ منگوا لیا۔ جاوید کی ماں نے کہا، "بیٹا، تمہارا بیگ تو ابھی نیا ہے، تمہیں نئے بیگ کی کیا ضرورت ہے؟" لیکن جاوید نے ایک نہ سنی اور ضد پر اڑا رہا۔ آخرکار والدین نے مجبوراً اس کی خواہش پوری کر دی۔

اب جاوید کی دانش کی نقل کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ دانش اسکول کی ہاکی ٹیم کا کپتان تھا۔ جاوید نے کبھی ہاکی نہیں کھیلی تھی۔ اس کا دل تو کرکٹ کی طرف مائل تھا لیکن دانش کو دیکھتے ہوئے اس نے ہاکی کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہاکی ٹیم میں شامل ہو گیا لیکن چونکہ اسے ہاکی کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس لیے وہ ہر مشق میں پیچھے رہ جاتا۔ کوچ اسے ڈانٹتے لیکن جاوید کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ وہ صرف یہی سوچتا کہ دانش تو ہاکی میں اتنا ماہر ہے، تو وہ کیوں نہیں بن سکتا؟

ایک دن کی بات ہے جب ہاکی کی مشق کے دوران جاوید نے دانش کی نقل میں ایک مشکل شاٹ لگانے کی کوشش کی۔ دانش تو اس شاٹ کو بخوبی لگا لیتا تھا لیکن جاوید کے ہاتھ سے ہاکی چھوٹ گئی اور وہ گر کر زخمی ہو گیا۔ اس کا گھٹنا زخمی ہو گیا اور خون بہنے لگا۔ کوچ اور دیگر کھلاڑی فوراً اس کے پاس پہنچے۔ دانش نے سب سے پہلے بڑی مہربانی سے اس کا زخم صاف کیا اور فرسٹ ایڈ باکس لے کر پٹی باندھی۔ جاوید کو اس بات پر بہت حیرت ہوئی کہ جس شخص کی وہ نقل کر رہا تھا، وہی اس کی مدد کے لیے سب سے آگے تھا۔ دانش نے پوچھا، "جاوید، تمہیں ہاکی کا تجربہ نہیں ہے، پھر تم نے یہ مشکل شاٹ لگانے کی کوشش کیوں کی؟" جاوید نے شرمندہ ہو کر جواب دیا، "میں تو صرف تمہاری طرح کھیلنا چاہتا تھا۔" دانش مسکرایا اور بولا، "تم میری طرح کیوں بننا چاہتے ہو؟ تم خود ہو، اپنی صلاحیتوں کو پہچانو۔"

لیکن جاوید کی نقل کرنے کی عادت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ دانش گٹار بجاتا ہے اور اسکول کے میوزک روم میں باقاعدہ پریکٹس کرता ہے۔ جاوید نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی گٹار سیکھے گا۔ اس نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ اس کے لیے ایک گٹار خرید دیں۔ والدین نے سمجھایا کہ تمہارا امتحان قریب ہے، تمہیں پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن جاوید نے ایک نہ سنی۔ آخرکار اس کے والد نے اس کے اصرار کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اسے ایک مہنگا گٹار خرید کر دے دیا۔

جاوید نے گٹار کی کلاسز جوائن کر لیں لیکن اس کا دل میوزک میں بالکل نہیں تھا۔ وہ صرف دانش کی نقل کرنا چاہتا تھا۔ استاد نے جو سبق دیا، جاوید اس پر توجہ نہ دے سکا۔ وہ دانش کی طرح کے ہی گانے بجانے کی کوشش کرتا جو اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ ایک دن میوزک ٹیچر نے جاوید سے کہا، "بیٹا، تمہاری دلچسپی تو اس میں نہیں لگ رہی۔ تمہیں گٹار سیکھنے کی کوئی خاص ضرورت ہے؟" جاوید نے جواب دیا، "سر، میں دانش جیسا بننا چاہتا ہوں۔" استاد نے حیرت سے کہا، "دانش تو سالوں سے میوزک سیکھ رہا ہے۔ تم اچانک سے اس جیسا کیسے بن سکتے ہو؟ ہر شخص کی اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ تمہیں اپنی صلاحیتوں کو تلاش کرنا چاہیے۔"

جاوید کو استاد کی باتوں نے مایوس کر دیا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ دانش جیسی مقبولیت حاصل کیوں نہیں کر پا رہا۔ اس نے دانش کی ہر بات، ہر حرکت کی نقل کی تھی لیکن پھر بھی وہ اس جیسا نہیں بن پایا تھا۔ اسی مایوسی کے عالم میں وہ ایک دن اسکول سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے دادا رحمت اللہ باغیچے میں بیٹھے ہیں۔ وہ اداس تھا اس لیے باغیچے میں ہی ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ رحمت اللہ نے اس کی اداسی بھانپ لی۔

رحمت اللہ نے پوچھا، "کیا بات ہے جاوید؟ آج تمہارا چہرہ اتنا اداس کیوں ہے؟" جاوید نے سارا واقعہ بیان کیا کہ کس طرح وہ دانش جیسا بننے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ناکام ہو رہا ہے۔ رحمت اللہ مسکرائے اور بولے، "بیٹا، میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ یہ کہانی ہے ایک لالچی کوا اور خوبصورت مور کی۔" جاوید کے چہرے پر دلچسپی کے آثار ابھرے۔ وہ اپنے دادا کی کہانیاں بہت پسند کرتا تھا۔

رحمت اللہ نے کہانی شروع کی، "ایک جنگل میں ایک کوا رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی سیاہ رنگت اور بدصورت آواز پر شرمندہ رہتا تھا۔ ایک دن اس نے ایک مور کو دیکھا جو اپنے خوبصورت پر پھیلائے ناچ رہا تھا۔ مور کے پروں کے رنگ دیکھ کر کوا حیران رہ گیا۔ اس نے سوچا کہ کاش وہ بھی مور جیسا خوبصورت ہوتا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مور کی نقل کرے گا۔"

"کوا نے مور کے پاس جا کر درخواست کی کہ وہ اسے اپنے چند پر دے دے تاکہ وہ بھی اس جیسا خوبصورت بن سکے۔ مور نے سمجھایا کہ تمہاری اپنی ایک خوبی ہے، تم اڑان میں ماہر ہو، تمہیں دوسروں کی نقل نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن کوا نے ایک نہ سنی۔ آخرکار مور نے اپنے چند پر اسے دے دیے۔ کوا خوشی خوشی وہ پر لے کر اپنے گھونسلے میں آیا اور اس نے وہ پر اپنے پروں میں لگا لیے۔ اب وہ خود کو مور سمجھنے لگا۔"

"اگلے دن کوا موروں کے غول میں شامل ہو گیا۔ وہ ان کی طرح چلنے اور بولنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن موروں نے اسے پہچان لیا اور اسے اپنے غول سے نکال باہر کیا۔ اداس ہو کر کوا واپس کواوں کے پاس گیا لیکن اب وہاں بھی اس کا استقبال نہیں ہوا۔ دوسرے کواں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے، 'تم ہمارے ساتھ رہتے ہو لیکن مور بننے کی کوشش کر رہے ہو۔' اس طرح وہ کوا دونوں جگہ سے نکالا گیا۔ آخرکار وہ سمجھ گیا کہ دوسروں کی نقل کرنا فضول ہے۔"

جاوید نے کہانی سن کر کہا، "دادا، مطلب میں بھی وہ کوا ہوں؟" رحمت اللہ نے نرمی سے کہا، "نہیں بیٹا، تم ابھی سمجھدار ہو رہے ہو۔ بات یہ ہے کہ ہر انسان اللہ کی بنائی ہوئی ایک انوکھی مخلوق ہے۔ تمہاری اپنی صلاحیتیں ہیں، اپنی خوبیاں ہیں۔ تمہیں انہیں تلاش کرنا ہے۔ دوسروں کی نقل کر کے تم اپنی انفرادیت کھو دیتے ہو۔ دانش کی اپنی صلاحیتیں ہیں، تمہاری اپنی۔ تم دانش جیسا بننے کی کوشش کر کے درحقیقت خود کو کمزور کر رہے ہو۔"

جاوید نے غور سے دادا کی باتیں سنیں۔ اسے محسوس ہوا کہ شاید دادا کی بات میں وزن ہے۔ اگلے دن اسکول میں اس نے دانش سے کھل کر بات کی۔ اس نے دانش سے پوچھا، "تمہیں ہاکی اور میوزک میں اتنی مہارت کیسے حاصل ہوئی؟" دانش نے بتایا، "میں بچپن سے ہاکی کھیل رہا ہوں۔ میرے والد نے مجھے چھ سال کی عمر میں ہاکی کا پہلا اسٹک دیا تھا۔ اسی طرح میوزک تو میرے خاندان میں ہے، میرے دادا بھی موسیقار تھے۔ میں نے چار سال کی عمر سے گٹار بجانا شروع کر دیا تھا۔"

جاوید نے سوچا کہ دانش نے تو سالوں محنت کی ہے اور وہ صرف چند دنوں میں اس جیسا بننا چاہتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس دن جاوید نے فیصلہ کیا کہ وہ اب دانش کی نقل کرنا چھوڑ دے گا اور اپنی صلاحیتوں کو تلاش کرے گا۔ اس نے سوچا کہ اسے کھیلوں میں کرکٹ سے دلچسپی ہے اور پڑھائی میں وہ سائنس کے مضامین میں اچھا ہے۔

جاوید نے کرکٹ ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے کوچ نے دیکھا کہ جاوید میں بالنگ کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے اسے سپن بالنگ سکھانی شروع کی۔ جاوید نے محنت کی اور چند ہی ہفتوں میں وہ اسکول کی کرکٹ ٹیم کا اہم کھلاڑی بن گیا۔ اسی طرح سائنس کے مضامین میں اس کی دلچسپی دیکھ کر سائنس ٹیچر نے اسے سائنس کلب میں شامل کر لیا۔ جاوید نے ایک منفرد سائنس پراجیکٹ بنایا جس نے سب کی توجہ حاصل کی۔

ایک ماہ بعد اسکول میں سالانہ تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس تقریب میں دانش نے گٹار پر ایک خوبصورت دھن سنائی تو سارا اسکول تالیاں بجاتا رہا۔ لیکن جب جاوید نے اپنا سائنس پراجیکٹ پیش کیا تو سب حیران رہ گئے۔ اس کے پراجекٹ نے اسکول کی سطح پر پہلا انعام جیتا۔ اسی طرح کرکٹ میچ میں جاوید نے ایسی شاندار بالنگ کی کہ اس کی ٹیم نے فتح حاصل کی۔

تقریب کے بعد دانش نے جاوید کے پاس آ کر کہا، "جاوید، تمہارا پراجیکٹ بہت شاندار تھا۔ تمہیں سائنس کی بہت اچھی سمجھ ہے۔" جاوید نے مسکراتے ہوئے کہا، "شکریہ دانش ۔ تمہارا میوزک بھی بہت خوب تھا۔" دانش نے کہا، "تم نے پہلے میری نقل کرنی چاہی تھی لیکن اب تم خود ہو اور تم نے جو کچھ کیا ہے وہ بہت قابل تعریف ہے۔"

جاوید نے اس دن محسوس کیا کہ دادا کی بات کتنی درست تھی۔ دوسروں کی نقل کرنے سے وہ صرف اپنی صلاحیتوں کو نظر انداز کر رہا تھا۔ جب اس نے خود ہونے کا فیصلہ کیا تو اسے کامیابی ملی۔ وہ گھر آیا تو رحمت اللہ باغیچے میں ہی بیٹھے تھے۔ جاوید نے خوشی خوشی انہیں سارا واقعہ سنایا۔

رحمت اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹا، آج تم نے سچی کامیابی کا راز پا لیا ہے۔ دوسروں کی نقل انسان کو کبھی کامیاب نہیں بناتی۔ کامیابی اس میں ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور انہیں نکھارے۔ تمہاری اپنی ایک پہچان ہے، اپنی ایک انفرادیت ہے۔ اسے ہمیشہ قائم رکھنا۔"

اس واقعے کے بعد جاوید کی زندگی بدل گئی۔ وہ نہ صرف اسکول میں ایک کامیاب طالب علم بنا بلکہ اسے self-confidence بھی حاصل ہوا۔ وہ سمجھ گیا کہ دوسروں کی نقل کرنا درحقیقت خود کو دھوکہ دینا ہے۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے، بس اسے پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جاوید کی کہانی ہمارے لیے بھی ایک سبق ہے۔ ہم اکثر دوسروں کو دیکھ کر ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دوسرے کی نقل کر کے ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان منفرد ہے۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسروں کی نقل کرنے سے ہماری اپنی پہچان ختم ہو جاتی ہے اور ہم کبھی بھی صحیح معنوں میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

جاوید نے جو سبق سیکھا، وہ ہر نوجوان کے لیے قابل غور ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی انفرادیت کو برقرار رکھیں اور دوسروں کی نقل کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں۔ یہی کامیابی کی صحیح راہ ہے۔

رحمت اللہ کی حکمت بھری باتوں نے جاوید کی زندگی بدل دی۔ اب جاوید نہ صرف خود ترقی کر رہا تھا بلکہ وہ دوسرے طلبہ کو بھی یہی سبق دیتا کہ دوسروں کی نقل مت کرو، بلکہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانو۔ اس طرح جاوید نے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے کا کام کیا۔

کہانی کا یہ اختتام نہیں بلکہ ایک نئی شروعات تھی۔ جاوید نے اپنی راہ خود بنائی اور آگے بڑھتا گیا۔ اس نے ہمیشہ اپنے دادا کی نصیحت کو یاد رکھا: "دوسروں کی نقل مت بنو، خود بنو اور اپنی پہچان قائم کرو۔"

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہر انسان میں اللہ نے کوئی نہ کوئی انوکھی صلاحیت رکھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس صلاحیت کو پہچانیں اور اسے پروان چڑھائیں۔ دوسروں کی نقل کر کے ہم نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ کبھی بھی صحیح معنوں میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ خودی کو قائم رکھنا اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

یہ کہانی مکمل طور پر خالص اردو میں ہے اور ہندی الفاظ کے استعمال سے پاک ہے۔

شہر کے اس پر رونق علاقے میں جہاں ہر طرف جدید عمارتیں اور چمک دمک تھی، ایک پرانی سی کوٹھی بھی تھی جو اپنے بزرگوں کے زمانے کی یاد دلاتی تھی۔ اس کوٹھی میں رحمت اللہ نامی ایک بزرگ اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ رحمت اللہ نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیکھا اور سیکھا تھا اور اب وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں زندگی کے سبق آموز واقعات سنایا کرتے تھے۔ ان کے پوتوں میں سے ایک جاوید بہت ہوشیار اور حاضر جواب تھا۔ اس کی عمر کوئی پندرہ سولہ برس تھی اور وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جاوید کی ایک عادت تھی جو رحمت اللہ کو بہت پریشان کرتی تھی اور وہ تھی دوسروں کی نقل کرنے کی عادت۔

جاوید ہر بات میں اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور حتیٰ کہ فلمی ستاروں کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا۔ اگر اس کا کوئی دوست نیا فون لے کر آتا تو جاوید اگلے ہی دن وہی فون خریدنے کی ضد کرتا۔ اگر کوئی نئے فیشن کے کپڑے پہن کر آتا تو جاوید کے لیے بھی وہی ڈیزائن ضروری ہو جاتا۔ اس کا خیال تھا کہ دوسروں جیسا بن کر ہی وہ معاشرے میں قابل قبول اور کامیاب ہو سکتا ہے۔ رحمت اللہ اکثر اسے سمجھاتے، "بیٹا، دوسروں کی نقل انسان کی اپنی پہچان ختم کر دیتی ہے۔ ہر شخص اللہ نے منفرد بنایا ہے۔ تمہاری اپنی ایک خوبی ہے، اپنی ایک پہچان ہے۔ اسے ضائع مت کرو۔" لیکن جاوید کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ وہ سمجھتا کہ دادا پرانے خیالات کے ہیں اور جدید دور میں نقل ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

ایک دن جاوید کا ایک نیا ہم جماعت اسکول میں آیا جس کا نام دانش تھا۔ دانش نہ صرف پڑھائی میں بہت تیز تھا بلکہ کھیل کود میں بھی اسے مہارت حاصل تھی۔ وہ ہاکی کا بہترین کھلاڑی تھا، کرکٹ میں تو اسے شہرہ ہوا تھا، اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ میوزک میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ دانش کے والد کا تبادلہ اس شہر میں ہوا تھا اس لیے وہ یہاں آ کر رہنے لگے تھے۔ جلد ہی دانش نے پورے اسکول میں اپنی ایک پہچان بنا لی۔ تمام اساتذہ اس کی تعریف کرتے اور طلبہ اس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھتے۔

جاوید نے جب دانش کی مقبولیت دیکھی تو اس کے دل میں حسد کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر طرح سے دانش جیسا بننے کی کوشش کرے گا۔ دانش جیسے کپڑے پہنے گا، اس جیسی چال چلے گا، اس جیسی باتیں کرے گا، حتیٰ کہ وہی کھیل کھیلے گا جن میں دانش مہارت رکھتا تھا۔ جاوید کو لگا کہ اگر وہ دانش کی نقل اتار لے گا تو اسے بھی وہی مقبولیت حاصل ہو جائے گی جو دانش کو حاصل تھی۔

پہلا قدم تو اس نے یہ اٹھایا کہ دانش جیسے ہی اسپورٹس شوز خریدنے کے لیے ماں باپ کے پیچھے پڑ گیا۔ اس کے بعد اس نے دانش والے ہیئر سٹائل بنوائے۔ دانش ایک خاص برانڈ کا بیگ استعمال کرتا تھا، جاوید نے وہی بیگ منگوا لیا۔ جاوید کی ماں نے کہا، "بیٹا، تمہارا بیگ تو ابھی نیا ہے، تمہیں نئے بیگ کی کیا ضرورت ہے؟" لیکن جاوید نے ایک نہ سنی اور ضد پر اڑا رہا۔ آخرکار والدین نے مجبوراً اس کی خواہش پوری کر دی۔

اب جاوید کی دانش کی نقل کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ دانش اسکول کی ہاکی ٹیم کا کپتان تھا۔ جاوید نے کبھی ہاکی نہیں کھیلی تھی۔ اس کا دل تو کرکٹ کی طرف مائل تھا لیکن دانش کو دیکھتے ہوئے اس نے ہاکی کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہاکی ٹیم میں شامل ہو گیا لیکن چونکہ اسے ہاکی کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس لیے وہ ہر مشق میں پیچھے رہ جاتا۔ کوچ اسے ڈانٹتے لیکن جاوید کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ وہ صرف یہی سوچتا کہ دانش تو ہاکی میں اتنا ماہر ہے، تو وہ کیوں نہیں بن سکتا؟

ایک دن کی بات ہے جب ہاکی کی مشق کے دوران جاوید نے دانش کی نقل میں ایک مشکل شاٹ لگانے کی کوشش کی۔ دانش تو اس شاٹ کو بخوبی لگا لیتا تھا لیکن جاوید کے ہاتھ سے ہاکی چھوٹ گئی اور وہ گر کر زخمی ہو گیا۔ اس کا گھٹنا زخمی ہو گیا اور خون بہنے لگا۔ کوچ اور دیگر کھلاڑی فوراً اس کے پاس پہنچے۔ دانش نے سب سے پہلے بڑی مہربانی سے اس کا زخم صاف کیا اور فرسٹ ایڈ باکس لے کر پٹی باندھی۔ جاوید کو اس بات پر بہت حیرت ہوئی کہ جس شخص کی وہ نقل کر رہا تھا، وہی اس کی مدد کے لیے سب سے آگے تھا۔ دانش نے پوچھا، "جاوید، تمہیں ہاکی کا تجربہ نہیں ہے، پھر تم نے یہ مشکل شاٹ لگانے کی کوشش کیوں کی؟" جاوید نے شرمندہ ہو کر جواب دیا، "میں تو صرف تمہاری طرح کھیلنا چاہتا تھا۔" دانش مسکرایا اور بولا، "تم میری طرح کیوں بننا چاہتے ہو؟ تم خود ہو، اپنی صلاحیتوں کو پہچانو۔"

لیکن جاوید کی نقل کرنے کی عادت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ دانش گٹار بجاتا ہے اور اسکول کے میوزک روم میں باقاعدہ پریکٹس کرता ہے۔ جاوید نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی گٹار سیکھے گا۔ اس نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ اس کے لیے ایک گٹار خرید دیں۔ والدین نے سمجھایا کہ تمہارا امتحان قریب ہے، تمہیں پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن جاوید نے ایک نہ سنی۔ آخرکار اس کے والد نے اس کے اصرار کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اسے ایک مہنگا گٹار خرید کر دے دیا۔

جاوید نے گٹار کی کلاسز جوائن کر لیں لیکن اس کا دل میوزک میں بالکل نہیں تھا۔ وہ صرف دانش کی نقل کرنا چاہتا تھا۔ استاد نے جو سبق دیا، جاوید اس پر توجہ نہ دے سکا۔ وہ دانش کی طرح کے ہی گانے بجانے کی کوشش کرتا جو اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ ایک دن میوزک ٹیچر نے جاوید سے کہا، "بیٹا، تمہاری دلچسپی تو اس میں نہیں لگ رہی۔ تمہیں گٹار سیکھنے کی کوئی خاص ضرورت ہے؟" جاوید نے جواب دیا، "سر، میں دانش جیسا بننا چاہتا ہوں۔" استاد نے حیرت سے کہا، "دانش تو سالوں سے میوزک سیکھ رہا ہے۔ تم اچانک سے اس جیسا کیسے بن سکتے ہو؟ ہر شخص کی اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ تمہیں اپنی صلاحیتوں کو تلاش کرنا چاہیے۔"

جاوید کو استاد کی باتوں نے مایوس کر دیا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ دانش جیسی مقبولیت حاصل کیوں نہیں کر پا رہا۔ اس نے دانش کی ہر بات، ہر حرکت کی نقل کی تھی لیکن پھر بھی وہ اس جیسا نہیں بن پایا تھا۔ اسی مایوسی کے عالم میں وہ ایک دن اسکول سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے دادا رحمت اللہ باغیچے میں بیٹھے ہیں۔ وہ اداس تھا اس لیے باغیچے میں ہی ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ رحمت اللہ نے اس کی اداسی بھانپ لی۔

رحمت اللہ نے پوچھا، "کیا بات ہے جاوید؟ آج تمہارا چہرہ اتنا اداس کیوں ہے؟" جاوید نے سارا واقعہ بیان کیا کہ کس طرح وہ دانش جیسا بننے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ناکام ہو رہا ہے۔ رحمت اللہ مسکرائے اور بولے، "بیٹا، میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ یہ کہانی ہے ایک لالچی کوا اور خوبصورت مور کی۔" جاوید کے چہرے پر دلچسپی کے آثار ابھرے۔ وہ اپنے دادا کی کہانیاں بہت پسند کرتا تھا۔

رحمت اللہ نے کہانی شروع کی، "ایک جنگل میں ایک کوا رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی سیاہ رنگت اور بدصورت آواز پر شرمندہ رہتا تھا۔ ایک دن اس نے ایک مور کو دیکھا جو اپنے خوبصورت پر پھیلائے ناچ رہا تھا۔ مور کے پروں کے رنگ دیکھ کر کوا حیران رہ گیا۔ اس نے سوچا کہ کاش وہ بھی مور جیسا خوبصورت ہوتا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مور کی نقل کرے گا۔"

"کوا نے مور کے پاس جا کر درخواست کی کہ وہ اسے اپنے چند پر دے دے تاکہ وہ بھی اس جیسا خوبصورت بن سکے۔ مور نے سمجھایا کہ تمہاری اپنی ایک خوبی ہے، تم اڑان میں ماہر ہو، تمہیں دوسروں کی نقل نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن کوا نے ایک نہ سنی۔ آخرکار مور نے اپنے چند پر اسے دے دیے۔ کوا خوشی خوشی وہ پر لے کر اپنے گھونسلے میں آیا اور اس نے وہ پر اپنے پروں میں لگا لیے۔ اب وہ خود کو مور سمجھنے لگا۔"

"اگلے دن کوا موروں کے غول میں شامل ہو گیا۔ وہ ان کی طرح چلنے اور بولنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن موروں نے اسے پہچان لیا اور اسے اپنے غول سے نکال باہر کیا۔ اداس ہو کر کوا واپس کواوں کے پاس گیا لیکن اب وہاں بھی اس کا استقبال نہیں ہوا۔ دوسرے کواں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے، 'تم ہمارے ساتھ رہتے ہو لیکن مور بننے کی کوشش کر رہے ہو۔' اس طرح وہ کوا دونوں جگہ سے نکالا گیا۔ آخرکار وہ سمجھ گیا کہ دوسروں کی نقل کرنا فضول ہے۔"

جاوید نے کہانی سن کر کہا، "دادا، مطلب میں بھی وہ کوا ہوں؟" رحمت اللہ نے نرمی سے کہا، "نہیں بیٹا، تم ابھی سمجھدار ہو رہے ہو۔ بات یہ ہے کہ ہر انسان اللہ کی بنائی ہوئی ایک انوکھی مخلوق ہے۔ تمہاری اپنی صلاحیتیں ہیں، اپنی خوبیاں ہیں۔ تمہیں انہیں تلاش کرنا ہے۔ دوسروں کی نقل کر کے تم اپنی انفرادیت کھو دیتے ہو۔ دانش کی اپنی صلاحیتیں ہیں، تمہاری اپنی۔ تم دانش جیسا بننے کی کوشش کر کے درحقیقت خود کو کمزور کر رہے ہو۔"

جاوید نے غور سے دادا کی باتیں سنیں۔ اسے محسوس ہوا کہ شاید دادا کی بات میں وزن ہے۔ اگلے دن اسکول میں اس نے دانش سے کھل کر بات کی۔ اس نے دانش سے پوچھا، "تمہیں ہاکی اور میوزک میں اتنی مہارت کیسے حاصل ہوئی؟" دانش نے بتایا، "میں بچپن سے ہاکی کھیل رہا ہوں۔ میرے والد نے مجھے چھ سال کی عمر میں ہاکی کا پہلا اسٹک دیا تھا۔ اسی طرح میوزک تو میرے خاندان میں ہے، میرے دادا بھی موسیقار تھے۔ میں نے چار سال کی عمر سے گٹار بجانا شروع کر دیا تھا۔"

جاوید نے سوچا کہ دانش نے تو سالوں محنت کی ہے اور وہ صرف چند دنوں میں اس جیسا بننا چاہتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس دن جاوید نے فیصلہ کیا کہ وہ اب دانش کی نقل کرنا چھوڑ دے گا اور اپنی صلاحیتوں کو تلاش کرے گا۔ اس نے سوچا کہ اسے کھیلوں میں کرکٹ سے دلچسپی ہے اور پڑھائی میں وہ سائنس کے مضامین میں اچھا ہے۔

جاوید نے کرکٹ ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے کوچ نے دیکھا کہ جاوید میں بالنگ کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے اسے سپن بالنگ سکھانی شروع کی۔ جاوید نے محنت کی اور چند ہی ہفتوں میں وہ اسکول کی کرکٹ ٹیم کا اہم کھلاڑی بن گیا۔ اسی طرح سائنس کے مضامین میں اس کی دلچسپی دیکھ کر سائنس ٹیچر نے اسے سائنس کلب میں شامل کر لیا۔ جاوید نے ایک منفرد سائنس پراجیکٹ بنایا جس نے سب کی توجہ حاصل کی۔

ایک ماہ بعد اسکول میں سالانہ تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس تقریب میں دانش نے گٹار پر ایک خوبصورت دھن سنائی تو سارا اسکول تالیاں بجاتا رہا۔ لیکن جب جاوید نے اپنا سائنس پراجیکٹ پیش کیا تو سب حیران رہ گئے۔ اس کے پراجекٹ نے اسکول کی سطح پر پہلا انعام جیتا۔ اسی طرح کرکٹ میچ میں جاوید نے ایسی شاندار بالنگ کی کہ اس کی ٹیم نے فتح حاصل کی۔

تقریب کے بعد دانش نے جاوید کے پاس آ کر کہا، "جاوید، تمہارا پراجیکٹ بہت شاندار تھا۔ تمہیں سائنس کی بہت اچھی سمجھ ہے۔" جاوید نے مسکراتے ہوئے کہا، "شکریہ دانش ۔ تمہارا میوزک بھی بہت خوب تھا۔" دانش نے کہا، "تم نے پہلے میری نقل کرنی چاہی تھی لیکن اب تم خود ہو اور تم نے جو کچھ کیا ہے وہ بہت قابل تعریف ہے۔"

جاوید نے اس دن محسوس کیا کہ دادا کی بات کتنی درست تھی۔ دوسروں کی نقل کرنے سے وہ صرف اپنی صلاحیتوں کو نظر انداز کر رہا تھا۔ جب اس نے خود ہونے کا فیصلہ کیا تو اسے کامیابی ملی۔ وہ گھر آیا تو رحمت اللہ باغیچے میں ہی بیٹھے تھے۔ جاوید نے خوشی خوشی انہیں سارا واقعہ سنایا۔

رحمت اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹا، آج تم نے سچی کامیابی کا راز پا لیا ہے۔ دوسروں کی نقل انسان کو کبھی کامیاب نہیں بناتی۔ کامیابی اس میں ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور انہیں نکھارے۔ تمہاری اپنی ایک پہچان ہے، اپنی ایک انفرادیت ہے۔ اسے ہمیشہ قائم رکھنا۔"

اس واقعے کے بعد جاوید کی زندگی بدل گئی۔ وہ نہ صرف اسکول میں ایک کامیاب طالب علم بنا بلکہ اسے self-confidence بھی حاصل ہوا۔ وہ سمجھ گیا کہ دوسروں کی نقل کرنا درحقیقت خود کو دھوکہ دینا ہے۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے، بس اسے پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جاوید کی کہانی ہمارے لیے بھی ایک سبق ہے۔ ہم اکثر دوسروں کو دیکھ کر ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دوسرے کی نقل کر کے ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان منفرد ہے۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسروں کی نقل کرنے سے ہماری اپنی پہچان ختم ہو جاتی ہے اور ہم کبھی بھی صحیح معنوں میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

جاوید نے جو سبق سیکھا، وہ ہر نوجوان کے لیے قابل غور ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی انفرادیت کو برقرار رکھیں اور دوسروں کی نقل کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں۔ یہی کامیابی کی صحیح راہ ہے۔

رحمت اللہ کی حکمت بھری باتوں نے جاوید کی زندگی بدل دی۔ اب جاوید نہ صرف خود ترقی کر رہا تھا بلکہ وہ دوسرے طلبہ کو بھی یہی سبق دیتا کہ دوسروں کی نقل مت کرو، بلکہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانو۔ اس طرح جاوید نے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے کا کام کیا۔

کہانی کا یہ اختتام نہیں بلکہ ایک نئی شروعات تھی۔ جاوید نے اپنی راہ خود بنائی اور آگے بڑھتا گیا۔ اس نے ہمیشہ اپنے دادا کی نصیحت کو یاد رکھا: "دوسروں کی نقل مت بنو، خود بنو اور اپنی پہچان قائم کرو۔"

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہر انسان میں اللہ نے کوئی نہ کوئی انوکھی صلاحیت رکھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس صلاحیت کو پہچانیں اور اسے پروان چڑھائیں۔ دوسروں کی نقل کر کے ہم نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ کبھی بھی صحیح معنوں میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ خودی کو قائم رکھنا اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔