وہ صبح جب سورج کی پہلی کرن نے امینہ کے کمرے کی کھڑکی سے جھانکا، تو اس کی نیند خود بخود کھل گئی۔ آج کا دن کوئی عام دن نہیں تھا۔ آج کا دن تھا بازار کی سیر کا۔ امینہ کے لیے یہ لفظ ہی ایک جادو سا رکھتا تھا۔ "بازار"۔ یہ لفظ بولتے ہی اس کے ذہن میں رنگوں کا ایک جہاں آباد ہو جاتا، آوازوں کا ایک شور سمایا کرتا اور خوشبوؤں کا ایک عجیب مرکب محسوس ہوتا۔ چچا جان نے کل ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ شہر کے مرکزی بازار تک لے کر جائیں گے، جسے لوگ پرانا بازار بھی کہتے تھے۔ یہ بازار شہر کی رگوں میں دوڑنے والی زندگی کی مانند تھا، جہاں ہر وقت حرکت، ہر وقت رونق رہتی۔
امینہ نے جلدی سے بستر چھوڑا، وضو کیا اور نماز فجر ادا کی۔ نماز کے بعد اس کی دعا میں آج بس ایک ہی بات تھی کہ چچا جان کا وعدہ پورا ہو اور کوئی کام درمیان میں نہ آئے۔ وہ نیچے کچن میں پہنچی تو اماں پہلے ہی ناشتہ تیار کر رہی تھیں۔ اماں کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی کس شدت سے اس دن کا انتظار کر رہی ہے۔
"اماں، چچا جان اٹھ گئے؟" امینہ نے بے چینی سے پوچھا۔
"ابھی نہیں بیٹا، تمہارے چچا جان کو تو تمہیں لے جانے کے لیے خاص طور پر جلدی اٹھنا ہے، تم ذرا سیٹ ہو جاؤ، چائے بنا کر لاتی ہوں۔" اماں نے پیار سے کہا۔
امینہ بے چینی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کی نظریں گھڑی پر ٹکی ہوئی تھیں۔ ہر گزرتا لمحہ اسے ایک عمر کے برابر محسوس ہو رہا تھا۔ آخرکار، سیڑھیوں پر چچا جان کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ چچا جان تازہ دم اور مسکراتے ہوئے کچن میں داخل ہوئے۔
"کیا بات ہے امینہ، تیار ہو؟ آج تو تم مجھ سے بھی پہلے جاگ گئی ہو۔" چچا جان نے ہنس کر کہا۔
"جی چچا جان، میں تو رات سے ہی تیار ہوں۔" امینہ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
ناشتے کے بعد دونوں تیار ہو گئے۔ اماں نے امینہ کو کچھ پیسے تھماتے ہوئے کہا، "سنو، کچھ میٹھا ضرور لینا، اور چچا جان کی بات ماننا، بازار میں بھیڑ بہت ہوتی ہے، ہاتھ ہاتھ میں رہنا۔"
امینہ نے اماں کی بات غور سے سنی اور ہاں میں سر ہلا دیا۔ چچا جان نے موٹر سائیکل نکالی اور امینہ پیچھے بیٹھ گئی۔ موٹر سائیکل کے اسٹارٹ ہوتے ہی امینہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ یہ سفر محض ایک بازار تک جانے کا سفر نہیں تھا، بلکہ ایک مہم جوئی کا آغاز تھا۔
شہر کے پرانے بازار کا رخ کرتے ہوئے سڑکیں بتدریج تنگ ہونے لگیں۔ جدید عمارتیں پیچھے رہ گئیں اور ان کی جگہ قدیم طرز کی بلند و بالا عمارتوں نے لے لی۔ یہ عمارتیں زمانے کی دھوپ اور بارش سہتے ہوئے بھی اپنی شان و شوکت پر ناز کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ ان کی بالکونیوں میں لگی لکڑی کی جالی دار کھڑکیاں اپنے اندر کتنی ہی کہانیاں چھپائے ہوئے تھیں۔ آخرکار چچا جان نے موٹر سائیکل ایک مخصوص جگہ پر پارک کی۔
"یہیں سے ہمارا سفر شروع ہوتا ہے امینہ۔" چچا جان بولے۔
امینہ نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ سامنے بازار کا مرکزی دروازہ تھا۔ یہ دروازہ کوئی حقیقی دروازہ تو نہیں تھا، بلکہ دو قدیم عمارتوں کے درمیان ایک خلا تھا، لیکن جیسے ہی کوئی اس خلا سے گزرتا، وہ ایک بالکل مختلف دنیا میں داخل ہو جاتا۔ دروازے کے قریب ہی ایک بزرگ حلوائی اپنی دکان سجا رہے تھے۔ تازہ تازہ حلوہ پوری اور جلیبیاں سنہری ہو کر تیل میں تیر رہی تھیں۔ ان کی خوشبو ہوا میں شامل ہو کر دور تک پھیل رہی تھی، جیسے بازار آنے والے ہر شخص کا استقبال کر رہی ہو۔
دونوں نے دروازے سے قدم اندر رکھا اور امینہ حیرت سے ایک جگہ کھڑی ہو گئی۔ اس کے سامنے ایک ایسی دنیا تھی جس میں ہر طرف زندگی کا رنگ بکھرا ہوا تھا۔ دکانیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح سڑی ہوئی تھیں کہ ان کے درمیان بمشکل ہی کوئی جگہ خالی نظر آتی۔ ہر دکان اپنے سامان سے لدی ہوئی تھی۔ اوپر سے رنگ برنگے کپڑوں کے شامیانے تناں ہوئے تھے جو دھوپ سے تو بچاتے ہی تھے، لیکن انہوں نے بازار کے اندر ایک پراسرار اور دلچسپ半黑暗 پیدا کر دی تھی۔
آوازوں کا ایک ملغوبہ تھا جو کانوں سے ٹکراتا تھا۔ کہیں دکاندار اپنے سامان کے rates بتا رہے تھے، تو کہیں گاہک سودے بازی کر رہے تھے۔ کسی نے کوئی چیز خریدی تو دکاندار نے زور سے "اللہ حافظ" پکارا۔ کسی گاڑی کے ہارن کی آواز، کہیں رکشہ والے کے "بچو بچو" کی پکار، یہ سب مل کر ایک ایسا سمفنی بناتے تھے جو صرف بازار میں ہی سنائی دیتا تھا۔
اور پھر خوشبوئیں۔۔۔ یہاں ہر چیز کی اپنی مہک تھی۔ تازہ پکی ہوئی مٹھائیوں کی میٹھی خوشبو، کباب اور تندور کیے ہوئے نان کی لذیذ باس، پھولوں کی کیاریوں سے آنے والی معطر ہوا، اور ان سب کے درمیان کہیں سے آنے والی عطر اور خوشبوؤں کی بھینی بھینی مہک۔ یہ سب خوشبوئیں مل کر ایک ایسا عجیب جادو کرتی تھیں کہ آپ کا دل چاہتا بازار میں گھنٹوں گھومتے رہیں۔
"چلو امینہ، پہلے تمہیں حلوائی کی دکان پر لے چلتا ہوں، ناشتہ تو کیا ہے؟" چچا جان نے کہا۔
امینہ نے خوشی سے ہاں میں سر ہلایا۔ حلوائی کی دکان پر پہنچ کر اس کی نظریں حلوہ پوری اور جلیبیوں پر جم گئیں جو اب بھی تازہ تازہ تیل میں تیر رہی تھیں۔ حلوائی بزرگ نے سفید لباس پہنا ہوا تھا اور اس کا چہرہ مسکراہٹوں سے بھرا ہوا تھا۔
"کیا لے کر آئے ہو صاحب؟ آج تو تازہ تازہ جلیبیاں بنی ہیں، دیکھو کتنی کرسپی ہیں۔" حلوائی نے خوش آمدید کہا۔
چچا جان نے دو پلیٹوں میں حلوہ پوری اور جلیبیاں منگوائیں۔ دونوں نے دکان کے ساتھ لگے ہوئے چھوٹے سے اسٹال پر بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ حلوہ پوری کے اندر والے آلے کا ذائقہ اور باہر کی میٹھی چٹنی کا ترکیب، یہ دونوں مل کر ایک ایسا ذائقہ بناتے تھے جسے امینہ ہمیشہ یاد رکھتی۔ جلیبی تو ایسی تھی کہ منہ میں رکھتے ہی پگھل جاتی۔
ناشتے کے بعد ان کا سفر آگے بڑھا۔ اب وہ بازار کے اس حصے میں پہنچے جہاں کپڑوں کی دکانیں تھیں۔ یہاں ہر طرف رنگ برنگے کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔ کہیں ریشم کے شال اور ساڑھیاں تھیں، تو کہیں سوتی کپڑے کے تھان۔ دکاندار اپنے سامان کو خوبصورتی سے سجا کر پیش کر رہے تھے۔ ایک دکان پر ایک نوجوان گاہک کو شلوار قمیض کا سیٹ دکھا رہا تھا۔
"دیکھیے صاحب، یہ جو بورڈ ہے، یہ پاکستان میں ہی بنتا ہے، کوالٹی دیکھیے، رنگ کتنا fast ہے۔" دکاندار نے پرجوش انداز میں کپڑا گاہک کے سامنے پھیلا دیا۔
امینہ کی نظریں ایک دکان پر ٹھہر گئیں جہاں خواتین کے لیے خوبصورت embroidered سوٹ لٹکے ہوئے تھے۔ ان پر کی گئی کڑھائی نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ اماں کے لیے ایک سوٹ لینے کا خیال اس کے ذہن میں آیا۔ چچا جان نے اس کی خواہش بھانپ لی۔
"چلو، ذرا اندر دیکھتے ہیں۔" چچا جان نے کہا۔
دکان کے مالک نے گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔ امینہ نے اماں کے لیے ایک نفیس سبز رنگ کا سوٹ پسند کیا، جس پر سونے کے دھاگوں سے کڑھائی کی گئی تھی۔ دکاندار نے سوٹ کو پھیلایا اور اس کی خوبیاں بتانا شروع کر دیں۔
"یہ دیکھیے بی بی، یہ کڑھائی ہاتھ سے ہوئی ہے، مشین کی نہیں۔ یہ رنگ buta ہے، دھوپ میں نہیں ڈرے گا۔" دکاندار نے تفصیل سے سمجھایا۔
سودے بازی کا مرحلہ آیا تو چچا جان نے اپنی مہارت دکھائی۔ انہوں نے دکاندار کے بتائے ہوئے ریٹ کو بہت زیادہ کہہ کر اعتراض کیا۔ دونوں کے درمیان ایک دوستانہ بحث چھڑ گئی۔ آخرکار ایک معقول قیمت پر بات طے پائی اور سوٹ خرید لیا گیا۔ امینہ نے خوشی سے سوٹ کو پیک کراتے دیکھا۔ یہ اس کی اماں کے لیے ایک چھوٹا سا تحفہ تھا۔
کپڑوں کی دکان سے نکل کر وہ آگے بڑھے تو امینہ کی توجہ ایک چھوٹی سی دکان پر گئی جہاں ہاتھ سے بنے ہوئے جوتے اور چپلیں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ دکان ایک بزرگ کے قبضے میں تھی جو اپنے ہاتھوں سے جوتے بنانے میں مصروف تھا۔ اس کے ہاتھوں پر وقت کی مہر لگی ہوئی تھی، لیکن وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔ دکان کے اندر ہر طرح کے جوتے تھے۔ کچھ پر intricate ڈیزائن بنے ہوئے تھے، کچھ سادہ لیکن مضبوط۔
امینہ نے ایک جوڑی چپل پسند کی جو نفیس چمڑے سے بنی ہوئی تھی اور اس پر چھوٹے موتیوں سے کام کیا گیا تھا۔ بزرگ کاریگر نے مسکراتے ہوئے چپل اس کے ہاتھ میں تھمائی۔
"یہ دیکھو بیٹا، یہ چپل میری بیٹی نے ڈیزائن کی ہے۔ تمہارے قدموں میں کھیل جائے گی۔" اس نے نرمی سے کہا۔
چپل پہن کر امینہ کو ایسا لگا جیسے یہ اس کے قدموں کے لیے ہی بنی ہے۔ کاریگر نے بتایا کہ وہ تین نسلوں سے یہ کام کر رہا ہے، لیکن اب نئی جنریشن اس کام کو آگے نہیں بڑھا رہی۔ اس کی بات میں ایک اداسی تھی۔ امینہ نے دل ہی دل میں سوچا کہ ایسی ہنرمندی کو زندہ رہنا چاہیے۔
اب وہ بازار کے اس حصے میں پہنچے جہاں زیورات کی دکانیں تھیں۔ یہاں ہر طرف چمک دمک تھی۔ سونے چاندی کے زیورات شیشے کے کیبنز میں سجے ہوئے تھے۔ کہیں باریک کام والے جھومر تھے، تو کہیں بھاری بھرکم ہار۔ خواتین زیورات کو غور سے دیکھ رہی تھیں اور اپنی پسند کا انتخاب کر رہی تھیں۔ ایک دکان پر ایک جوڑا شادی کے لیے زیورات دیکھ رہا تھا۔ لڑکی کا چہرہ شرمیلے انداز میں جھکا ہوا تھا، جبکہ لڑکا فخر کے ساتھ اسے زیورات دکھا رہا تھا۔
امینہ نے ایک چاندی کی چین پسند کی جس کے آخر میں ایک ننھا سا ہار لٹک رہا تھا۔ چچا جان نے اسے وہ چین خرید کر دے دی۔ امینہ نے فوراً ہی اسے اپنے گلے میں ڈال لیا۔ چاندی کی ٹھنڈک اس کے دل کو خوشی سے بھر رہی تھی۔
زیورات کی دکانوں کے بعد ان کے سامنے مصالحوں کی دنیا آ گئی۔ یہاں ہر طرف رنگ برنگے مصالحے تھے۔ لال مرچ کا پاؤڈر، ہلدی، زیرہ، دار چینی، الائچی، اور بے شمار دوسرے مصالحے جن کی خوشبوئیں ہوا میں گھل مل رہی تھیں۔ ہر دکان پر مصالحوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ دکاندار مصالحوں کو تھیلوں میں باندھنے میں مصروف تھے۔
امینہ نے دیکھا کہ ایک دکان پر ایک بزرگ خاتون مصالحے خرید رہی تھیں۔ دکاندار انہیں ہر مصالحے کی خصوصیات بتا رہا تھا۔
"باجی، یہ دیکھیے، یہ زیرہ کتنا صاف ہے، ذرا سونگھیے، خوشبو کتنی تیز ہے۔" دکاندار نے زیرہ کی ایک مٹھی بزرگ خاتون کے سامنے کر دی۔
بڑی خاتون نے غور سے زیرہ سونگھا اور مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا۔ امینہ نے سوچا کہ اماں کے لیے کچھ خاص مصالحے لے جانے چاہئیں۔ چچا جان نے ادھر ہی ایک دکان سے اماں کے پسندیدہ مصالحے خرید لیے۔ مصالحوں کی خوشبو نے تھیلے میں سے ہی باہر آنا شروع کر دیا تھا۔
مصالحوں کی دکانوں کے قریب ہی پھلوں اور سبزیوں کا بازار تھا۔ یہاں ہر طرف تازہ ترین پھل اور سبزیاں سجی ہوئی تھیں۔ آم، سیب، کیلا، سنترا، انگور، ہر قسم کے پھل اپنی رنگت کے ساتھ خریداروں کو لبھا رہے تھے۔ سبزی والے اونچی آواز میں اپنے سامان کے rates لگا رہے تھے۔
"آؤ آؤ، تازہ پالک لے لو، کل ہی کی کٹی ہوئی ہے۔"
"یہ دیکھو ٹماٹر، کتنا سرخ ہے، جیسے لال یاقوت۔"
امینہ نے دیکھا کہ ایک سبزی والا اپنی گاڑی پر سجے ہوئے تربوز کو ترتیب دے رہا ہے۔ تربوز کے سبز چھلکے اور ان پر پڑی ہوئی ہلکی سی دھوپ کی کرن نے ایک منفرد نظارہ پیش کیا۔ چچا جان نے کچھ تازہ پھل اور سبزیاں خریدیں جو اماں کے لیے لے جانے تھے۔
اب دوپہر ہو چلی تھی اور بازار میں رونق اور بڑھ گئی تھی۔ ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا۔ امینہ نے محسوس کیا کہ یہ بازار محض سامان خریدنے کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ تو ایک ایسی جگہ ہے جہاں زندگی اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ بہہ رہی ہے۔ یہاں ہر شخص اپنی مصروفیت میں مگن ہے، لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور محبت کا جذبہ موجود ہے۔
بھوک لگنے پر چچا جان امینہ کو ایک مشہور کھانے کی دکان پر لے گئے۔ یہ دکان بازار کے ایک کونے میں واقع تھی اور اس کے باوجود وہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔ دکان پر نہاری، حلیم، اور دوسرے روایتی کھانے تیار ہو رہے تھے۔ دونوں نے نہاری کا آرڈر دیا۔ جب نہاری کی پیالی سامنے آئی تو اس کی خوشبو نے امینہ کی بھوک اور بڑھا دی۔ گرم گرم نہاری اور نان کا ذائقہ ایسا تھا کہ امینہ اسے ہمیشہ یاد رکھتی۔
کھانا کھاتے ہوئے چچا جان نے بازار کی تاریخ کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ "یہ بازار صدیوں پرانا ہے امینہ۔ ہمارے دادا بتایا کرتے تھے کہ یہاں پر کاروان آتے تھے، دور دور سے تاجر اپنا سامان لے کر یہاں پہنچتے تھے۔ یہ بازار نہ صرف سامان کی خرید و فروخت کا مرکز تھا، بلکہ ثقافتوں کے ملاپ کی جگہ بھی تھا۔"
امینہ نے غور سے چچا جان کی بات سنی۔ اسے لگا جیسے وہ وقت میں پیچھے جا رہی ہو۔ اس نے سوچا کہ کس طرح یہ بازار زمانے کے اتار چڑھاؤ کا گواہ رہا ہوگا۔ کس طرح مختلف ادوار میں یہاں کے لوگوں نے اپنی زندگیاں گزاری ہوں گی۔
کھانے کے بعد انہوں نے بازار کے اس حصے کا رخ کیا جہاں دستکاری اور روایتی سامان کی دکانیں تھیں۔ یہاں ہاتھ سے بنی ہوئی چیزوں کی بہتات تھی۔ مٹی کے برتن، لکڑی کے کھلونے، ہاتھ سے بنی ہوئی چادریں، اور بہت کچھ۔ ایک دکان پر ایک نوجوان لڑکا لکڑی کے کھلونے بنا رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں ایک چھوٹا سا پرندہ شکل اختیار کر رہا تھا۔ امینہ نے حیرت سے دیکھا کہ کس مہارت سے وہ لکڑی کو تراش رہا تھا۔
چچا جان نے بتایا کہ یہ دستکاری ہماری ثقافت کا اہم حصہ ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ امینہ نے دل میں عہد کیا کہ وہ ایسی چیزوں کی قدر کرے گی اور انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کرے گی۔
شام ڈھلنے لگی تھی اور بازار میں روشنیاں جگنے لگی تھیں۔ رات کے وقت بازار کی رونق میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ دکانیں روشنیوں سے جگمگا رہی تھیں۔ ہر طرف ایک مختلف ہی دنیا آباد ہو گئی تھی۔ امینہ نے محسوس کیا کہ اسے یہاں سے جانے کا دل نہیں کر رہا، لیکن وقت ہو چکا تھا۔
واپسی کا سفر شروع ہوا تو امینہ نے پیچھے مڑ کر بازار کو ایک نظر دیکھا۔ روشنیوں میں نہایا ہوا بازار ایسا لگ رہا تھا جیسے ستاروں بھری رات میں جگمگاتا ہوا ایک خواب ہو۔ اس نے سوچا کہ آج کا دن اس کی زندگی کے بہترین دنوں میں سے ایک تھا۔
گھر پہنچ کر امینہ نے اماں کو تمام واقعات سنائے۔ اماں مسکرا رہی تھیں، وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی نے آج کتنا کچھ سیکھا ہوگا۔ امینہ نے اماں کو سوٹ اور مصالحے دیے تو اماں کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
رات کو سوتے وقت امینہ کے ذہن میں بازار کے تمام منظر تازہ تھے۔ آوازیں، خوشبوئیں، رنگ، سب کچھ ایک خواب کی مانند اس کے سامنے تھا۔ اس نے سوچا کہ بازار محض ایک جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ تو ایک ایسی زندہ چیز ہے جو ہماری ثقافت، ہماری تاریخ، اور ہماری زندگیوں کا اہم حصہ ہے۔