>

کہانی گھر

ٹی وی شو کا شوقین

ایک چھوٹے سے شہر میں، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں اور سائیکلوں کی گھنٹیاں گونجتی تھیں، ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام فیصل تھا۔ فیصل کی عمر بائیس سال تھی، اور وہ ایک چھوٹی سی الیکٹرانکس کی دکان پر کام کرتا تھا، جہاں پرانے ریڈیوز، ٹی وی سیٹس، اور ٹوٹی پھوٹی وائرنگ کے ڈھیر اس کے روزمرہ کے ساتھی تھے۔ لیکن فیصل کا اصل شوق کچھ اور تھا—وہ ٹی وی شوز کا دیوانہ تھا۔ ہر شام، جب دکان بند ہوتی، وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا اور گھنٹوں ڈراموں، کامیڈی شوز، اور رئیلٹی پروگراموں میں گم ہو جاتا۔ اس کی پسندیدہ شو تھی "رازِ شہر"، ایک پراسرار ڈراما جو شہر کے رازوں اور چھپے ہوئے جرائم کو بے نقاب کرتا تھا۔

فیصل کے والد، ناصر، ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر تھے، جو اب گھر پر رہ کر اخبارات پڑھتے اور پڑوس کے بچوں کو مفت ٹیوشن دیتے تھے۔ فیصل کی ماں، شازیہ، ایک گھریلو خاتون تھیں جو اپنی لذیذ بریانی کے لیے مشہور تھیں۔ فیصل کا چھوٹا بھائی، کامران، ایک شرارتی اسکول لڑکا تھا جو فیصل کے ٹی وی شوق کو مذاق سمجھتا تھا۔ ایک دن کامران نے ہنستے ہوئے کہا، "بھائی، تم یہ ٹی وی شوز دیکھ دیکھ کر کب تک وقت ضائع کرو گے؟ کچھ اور کر لو!" فیصل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "کامران، یہ شوز صرف وقت ضائع نہیں، یہ کہانیاں ہیں جو مجھے نئی دنیا دکھاتی ہیں۔"

فیصل کی زندگی میں ایک اور اہم کردار تھا—اس کی بچپن کی دوست، رمشا، جو ایک مقامی کالج میں آرٹ کی طالبہ تھی۔ رمشا ہمیشہ فیصل کو اپنے خوابوں کی طرف بڑھنے کی ترغیب دیتی تھی۔ وہ کہا کرتی تھی، "فیصل، تمہارے اندر ایک کہانی کار چھپا ہے۔ تم خود ایک شو بناؤ!" فیصل ہنس کر بات ٹال دیتا، لیکن رمشا کے الفاظ اس کے دل میں گھر کر گئے تھے۔ بازار میں ایک اور شخص تھا، چاچا بشیر، ایک پرانے ویڈیو کیسٹ کی دکان کا مالک، جو فیصل کو پرانے ٹی وی شوز کی ریکارڈنگز دیتا تھا۔ چاچا بشیر نے ایک دن فیصل سے کہا، "بیٹا، یہ شوز تمہیں خواب دکھاتے ہیں، لیکن اصلی زندگی ان سے بڑی ہے۔"

فیصل کی زندگی ٹی وی شوز کے گرد گھومتی تھی، لیکن اس کے دل میں ایک خواہش تھی کہ وہ خود کچھ بڑا کرے—شاید ایک دن اس کا اپنا شو بنے، جو شہر کے لوگوں کو متاثر کرے۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا یہ شوق اسے ایک ایسی راہ پر لے جائے گا جو اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گی۔

ایک دن، جب فیصل دکان پر بیٹھا ایک پرانا ٹی وی ٹھیک کر رہا تھا، اسے ایک مقامی چینل سے ای میل موصول ہوئی۔ یہ ای میل "رازِ شہر" کے پروڈیوسرز کی طرف سے تھی، جنہوں نے ایک مقابلہ شروع کیا تھا جس میں شائقین سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے شہر کی ایک سچی کہانی بھیجیں، جو شو کا حصہ بن سکتی تھی۔ فیصل کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ اپنے شہر کی ایک کہانی لکھ کر بھیجے گا، تو شاید اسے شو کا حصہ بننے کا موقع مل جائے۔ اس نے رمشا سے بات کی، جس نے کہا، "فیصل، یہ تمہارا موقع ہے! اپنے شہر کی ایک ایسی کہانی لکھو جو سب کے دل کو چھو لے۔"

فیصل نے رات بھر جاگ کر ایک کہانی لکھی—ایک ایسی کہانی جو اس کے شہر کے بازار میں ایک پرانے دکاندار کی زندگی پر مبنی تھی، جس نے اپنی ساری زندگی دوسروں کی مدد میں گزاری، لیکن اس کا اپنا بیٹا اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ فیصل نے یہ کہانی چاچا بشیر سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔ اس نے کہانی بھیج دی، اور کچھ دنوں بعد اسے جواب ملا کہ اس کی کہانی منتخب ہو گئی ہے، اور اسے شہر سے باہر ایک بڑے اسٹوڈیو میں مدعو کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی کہانی پروڈیوسرز کو سنا سکے۔

فیصل خوشی سے پاگل ہو گیا، لیکن اس کی خوشی زیادہ دیر نہ رہی۔ جب وہ اسٹوڈیو پہنچا، تو اسے پتا چلا کہ مقابلے کے منتظمین نے اس کی کہانی کو تبدیل کر دیا تھا۔ انہوں نے اسے ایک سنسنی خیز جرم کی کہانی میں بدل دیا تھا، جو فیصل کے شہر کو ایک خطرناک جگہ کے طور پر دکھاتی تھی۔ فیصل نے پروڈیوسر سے کہا، "یہ میری کہانی نہیں ہے! میں نے تو ایک سچی، جذباتی کہانی لکھی تھی!" پروڈیوسر نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "فیصل، ٹی وی شوز حقیقت نہیں بیچتے، ڈراما بیچتے ہیں۔ لوگ سنسنی چاہتے ہیں۔"

فیصل کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔ اس نے رمشا سے فون پر بات کی اور کہا، "رمشا، انہوں نے میری کہانی کو مسخ کر دیا۔ اب کیا کروں؟" رمشا نے کہا، "فیصل، اگر تم اپنی کہانی پر یقین رکھتے ہو، تو اسے اپنی آواز دو۔ اپنی بات کو دنیا تک پہنچاؤ!" فیصل نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اصلی کہانی کو لوگوں تک پہنچائے گا، لیکن اسے معلوم تھا کہ اس کے لیے اسے بڑی ہمت کی ضرورت ہوگی۔

واپس شہر پہنچ کر، فیصل نے چاچا بشیر اور اپنے والد سے مشورہ کیا۔ چاچا بشیر نے کہا، "بیٹا، اگر تم سچ بولنا چاہتے ہو، تو ڈرو مت۔ لوگ سچ کو سننا چاہتے ہیں۔" لیکن فیصل کو ایک اور جھٹکا لگا جب اسے پتا چلا کہ شو کے پروڈیوسرز نے اس کے شہر کے بازار کو بدنام کرنے کے لیے ایک جھوٹی خبر پھیلائی کہ وہاں غیر قانونی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ یہ خبر شہر کے لوگوں کے لیے خطرہ بن گئی، کیونکہ بازار کی ساکھ داؤ پر لگ گئی۔

فیصل نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموش نہیں رہے گا۔ اس نے رمشا، کامران، اور چاچا بشیر کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک مقامی تقریب منعقد کریں گے، جہاں فیصل اپنی اصلی کہانی سب کے سامنے پیش کرے گا۔ رمشا نے اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا اسٹیج بنایا، اور کامران نے اپنے اسکول کے دوستوں کو مدعو کیا۔ چاچا بشیر نے اپنی پرانی ویڈیو ریکارڈنگز سے ایک ویڈیو بنائی جو بازار کی خوبصورتی اور اس کی کہانیوں کو دکھاتی تھی۔

تقریب کے دن، بازار رنگوں اور روشنیوں سے سجا تھا۔ فیصل نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر اپنی کہانی سنائی۔ اس نے کہا، "یہ بازار صرف دکانیں نہیں، یہ ہمارے خوابوں اور کہانیوں کا گھر ہے۔ اسے بدنام کرنے والے ہماری شناخت چھیننا چاہتے ہیں۔" اس کی کہانی نے سب کے دل کو چھو لیا۔ رمشا نے کہا، "فیصل، تم نے آج ثابت کر دیا کہ سچ ہمیشہ طاقتور ہوتا ہے۔"

تقریب کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، اور لوگوں نے فیصل کی کہانی کو سراہا۔ ایک بڑے شہر سے ایک آزاد فلم ساز نے فیصل سے رابطہ کیا اور اس کی کہانی کو ایک مختصر فلم میں تبدیل کرنے کی پیشکش کی۔ پروڈیوسرز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اور انہوں نے فیصل سے معافی مانگ کر اس کی اصلی کہانی کو شو میں شامل کیا۔ بازار کی ساکھ بحال ہو گئی، اور فیصل کا خواب سچ ہوا—اس کی کہانی نے نہ صرف اس کے شہر بلکہ پورے ملک کے لوگوں کو متاثر کیا۔

فیصل نے اپنی دکان پر ایک چھوٹا سا ٹی وی رکھا، جہاں وہ اپنی فلم دکھاتا تھا۔ کامران نے فخر سے کہا، "بھائی، اب تم خود ایک شو ہو!" فیصل نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "کامران، یہ شو نہیں، یہ ہم سب کی کہانی ہے۔" اس نے اپنے شوق کو اپنی طاقت بنایا، اور اسے احساس ہوا کہ سچائی اور محنت سے کوئی بھی خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔