ایک متوسط شہر کی ایک عام سی کالونی میں، جہاں گلیوں میں بچوں کی ہنسی اور گھروں سے کھانے کی خوشبوئیں نکلتی تھیں، ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام سارہ تھا۔ سارہ کی عمر اکیس سال تھی، اور وہ یونیورسٹی میں پہلے سال کی طالبہ تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک وقت تھا جب خوابوں کی چمک ہوتی تھی، جب وہ کتابوں اور دوستوں کی دنیا میں گم رہتی تھی۔ لیکن اب اس کی زندگی کا مرکز اس کا اسمارٹ فون تھا، جس کی اسکرین ہر لمحے اسے کھینچتی رہتی تھی۔ انسٹاگرام، ٹک ٹاک، اور فیس بک اس کی نئی دنیا بن چکے تھے، جہاں لائکس، کمنٹس، اور شیئرز اس کی خوشی کا پیمانہ بن گئے تھے۔
سارہ کے والد، احمد، ایک سرکاری ملازم تھے جو دن بھر کام کرتے اور شام کو تھک کر گھر آتے۔ وہ سارہ کی لت کو دیکھ کر پریشان رہتے، لیکن کام کی مصروفیات کی وجہ سے کچھ کہہ نہ پاتے۔ سارہ کی ماں، فرحانہ، ایک ہاؤس وائف تھیں جو گھر کی ذمہ داریاں نبھاتیں اور سارہ کو کھانا کھلاتیں، لیکن سارہ اکثر فون میں گم ہو جاتی اور کھانا ٹھنڈا ہو جاتا۔ سارہ کی بہن، مریم، جو اس سے دو سال بڑی تھی، ایک نوکری کرتی تھی اور سارہ کی لت کو مذاق سمجھتی تھی۔ ایک دن مریم نے ہنستے ہوئے کہا، "سارہ، تمہارا فون تمہارا شوہر ہے کیا؟ کبھی تو اٹھ کر باہر نکلو!" سارہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "دیکھو دی، یہ میری دنیا ہے۔ یہاں سب کچھ ہے—دوست، تفریح، سب کچھ۔"
سارہ کی زندگی میں ایک اور اہم کردار تھی—اس کی بہترین دوست، عائشہ، جو یونیورسٹی میں اس کی کلاس فیلو تھی۔ عائشہ ایک فعال لڑکی تھی جو کتابیں پڑھتی، کھیلتی، اور دوستوں کے ساتھ باہر نکلتی تھی۔ وہ سارہ کو اکثر کہتی، "سارہ، یہ سوشل میڈیا تمہیں کھا رہا ہے۔ ایک دن چھوڑ دو، دیکھنا کتنا مزہ آئے گا!" سارہ ہنس دیتی، لیکن عائشہ کے الفاظ اس کے دل میں اترتے تھے۔ کالونی میں ایک بوڑھا پڑوسی، چاچا جی، بھی تھا جو سارہ کو دیکھ کر کہتا، "بیٹی، یہ مشینیں انسان کو غلام بنا دیتی ہیں۔ اصلی زندگی تو باہر ہے۔"
سارہ کی روزمرہ کی زندگی اب فون کے گرد گھومتی تھی۔ صبح اٹھتے ہی وہ انسٹاگرام کی سٹوریز چیک کرتی، لیکچر کے دوران نوٹیفکیشنز دیکھتی، اور رات دیر تک ٹک ٹاک ویڈیوز میں گم رہتی۔ اسے لگتا کہ یہ اس کی آزادی ہے، اس کی تخلیقی دنیا، لیکن حقیقت میں یہ اسے ایک غلام بنا رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ لت اس کی زندگی کو کیسے تباہ کر دے گی، اور اسے نجات دلانے کے لیے کیا جدوجہد کرنی پڑے گی۔
ایک دن، جب سارہ یونیورسٹی سے واپس آ رہی تھی، اس کا فون بج اٹھا۔ عائشہ کا میسج تھا: "سارہ، کل کا پراجیکٹ تیار ہے؟ ہمارا گروپ میٹنگ ہے!" سارہ نے جلدی سے جواب دیا، "ہاں ہاں، میں کر لوں گی۔" لیکن حقیقت میں اس نے پراجیکٹ پر ذرا بھی کام نہیں کیا تھا۔ پچھلی رات وہ ٹک ٹاک پر ٹرینڈنگ ویڈیوز دیکھتے دیکھتے سو گئی تھی۔ اگلے دن کلاس میں، جب پروفیسر نے پراجیکٹ پیش کرنے کو کہا، سارہ کی باری آئی تو اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ پروفیسر نے ناراض ہو کر کہا، "سارہ، یہ کیا ہے؟ تمہاری تو ساری سمسٹر کی کارکردگی کمزور ہے۔ کیا تم فون میں گم رہتی ہو؟" سارہ شرمندہ ہو گئی، اور کلاس کے سامنے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
گھر پہنچ کر سارہ نے ماں سے کہا، "آج تو کلاس میں بہت برا ہوا۔" فرحانہ نے تسلی دی، "بیٹی، بس فون کو تھوڑا کم کرو۔ تمہاری پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔" لیکن سارہ نے سوچا کہ یہ تو ایک اتفاق ہے۔ اگلے ہفتے، سارہ کی انسٹاگرام پر ایک پوسٹ وائرل ہو گئی—ایک سیلفی جو اس نے اپنی کلاس کی یونیفارم میں لی تھی۔ لائکس اور کمنٹس کی برسات ہوئی، اور سارہ خوشی سے پاگل ہو گئی۔ اس نے رات بھر نئی پوسٹس کی پلاننگ کی، اور پڑھائی بالکل بھول گئی۔ مریم نے دیکھا تو کہا، "سارہ، یہ لائکس تمہاری زندگی نہیں بدلیں گی۔ تمہاری ڈگری بدلے گی!" سارہ نے غصے سے جواب دیا، "تمہیں کیا پتا، یہ میری پہچان ہے!"
لیکن لت بڑھتی گئی۔ سارہ کی نیند کم ہو گئی، اس کا وزن کم ہوا، اور گھر والوں سے جھگڑے بڑھ گئے۔ ایک دن احمد نے فون چھین لیا، تو سارہ رو پڑی اور چیخ مار کر کہا، "بابا، یہ میری زندگی ہے! تم مجھے قید کر رہے ہو!" احمد نے افسوس سے کہا، "بیٹی، یہ لت تمہیں کھا رہی ہے۔" عائشہ نے سارہ کو بلایا، "چلو، پارک میں چلتے ہیں۔ فون گھر چھوڑ دو۔" سارہ گئی تو، لیکن ہر لمحے فون چیک کرتی رہی۔ اچانک ایک ٹوئسٹ آیا—سارہ کی ایک پوسٹ پر ایک غلط کمنٹ آیا، جس نے اسے ذہنی طور پر توڑ دیا۔ لوگوں نے اسے ٹرول کیا، اور سارہ رات بھر روتی رہی۔ اسے احساس ہوا کہ یہ دنیا جھوٹی ہے، لیکن نکلنا مشکل تھا۔
یونیورسٹی میں سارہ کی ناکامی کا نتیجہ نکلا—اسے ایک سمسٹر بیک ہونا پڑا۔ گھر میں جھگڑے بڑھ گئے، اور سارہ تنہائی میں اور گہرے ڈوب گئی۔ عائشہ نے کہا، "سارہ، مجھے تمہارے لیے فکر ہے۔ یہ لت تمہیں تباہ کر دے گی۔" سارہ نے روتے ہوئے کہا، "عائشہ، میں کوشش کر رہی ہوں، لیکن یہ چھوڑ نہیں سکتی۔" یہ لمحہ سارہ کے لیے سب سے مشکل تھا، جہاں اسے اپنی لت کی شدت کا احساس ہوا۔
سارہ نے فیصلہ کیا کہ وہ تبدیلی لائے گی۔ اس نے عائشہ اور مریم کی مدد سے ایک پلان بنایا—فون پر ٹائم لمٹ لگائی، ہر دن ایک گھنٹہ باہر نکلنا، اور پڑھائی پر فوکس کرنا۔ چاچا جی نے سارہ کو اپنی پرانی کہانیاں سنائیں، جو فون سے پہلے کی دنیا کی تھیں۔ فرحانہ نے سارہ کو کھانا کھلایا اور کہا، "بیٹی، ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔" احمد نے ایک ماہر نفسیات سے بات کی، جو سارہ کو کاؤنسلنگ دی۔ پہلے دن مشکل تھے—سارہ کو واپس جانے کی خواہش ہوئی—لیکن عائشہ نے اسے پارک لے جاکر کہا، "دیکھو، یہ اصلی دنیا ہے۔ یہاں لائکس نہیں، محبت ہے۔"
آہستہ آہستہ سارہ بہتر ہوئی۔ اس نے اپنا فون کم استعمال کیا، کتابیں پڑھنے لگیں، اور یونیورسٹی میں اچھا پرفارم کیا۔ ایک دن سارہ نے اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک بلاگ لکھا، جو انٹرنیٹ لت پر تھا۔ یہ بلاگ وائرل ہو گیا، اور لوگوں نے سارہ کی ہمت کی تعریف کی۔ مریم نے فخر سے کہا، "سارہ، تم نے ثابت کر دیا کہ لت سے نکلنا ممکن ہے۔" سارہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "دی، یہ تم سب کی وجہ سے ہوا۔ اب میں انٹرنیٹ کو استعمال کرتی ہوں، نہ کہ وہ مجھے۔"
سارہ کی زندگی میں ایک نئی رونق لوٹ آئی۔ وہ عائشہ کے ساتھ کھیلتی، چاچا جی کی کہانیاں سنتی، اور گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتی۔ اس کی یونیورسٹی میں کارکردگی بہتر ہوئی، اور اسے ایک انٹرنشپ ملی۔ سارہ نے اپنے فون پر ایک نوٹ لگایا: "یاد رکھو، یہ آلہ ہے، غلام نہیں۔" اس تجربے نے سارہ کو سکھایا کہ لت سے نکلنا مشکل ہوتا ہے، لیکن محبت اور مدد سے ناممکن نہیں۔ اب سارہ دوسروں کو بھی یہ بات سکھاتی تھی، اور اس کی کہانی ایک امید کی کرن بن گئی۔