ایک چھوٹے سے قصبے میں، جہاں پرانے پیپل کے درختوں کی چھاؤں میں گلیاں سانس لیتی تھیں اور صبح کی اذان کی آواز گھروں کے کونوں تک پہنچتی تھی، ایک پرانا گھر کھڑا تھا۔ یہ گھر، جو مقامی لوگ "حویلی والی گلی" کا گھر کہتے تھے، اپنی پرانی اینٹوں، جھکے ہوئے دروازوں، اور کھڑکیوں سے جھانکتے شیشوں کے ساتھ وقت کی کہانی سنا رہا تھا۔ اس گھر میں رہتی تھی لیلٰی، ایک پچیس سالہ لڑکی جس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی جستجو تھی—ایک ایسی جستجو جو نہ صرف اپنے ماضی کو سمجھنا چاہتی تھی بلکہ اپنے وجود کی گہرائی کو بھی ڈھونڈنا چاہتی تھی۔
لیلٰی کے والد، خالد، ایک ریٹائرڈ فوجی افسر تھے، جن کی زندگی نظم و ضبط اور خاموشی سے بھری تھی۔ وہ گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر پرانے اخبارات پڑھتے اور اپنی فوجی یادوں میں کھو جاتے۔ لیلٰی کی ماں، صبا، ایک خاموش طبیعت کی خاتون تھیں جو گھر کے پرانے کمروں کو سجاتیں اور پرانے خاندانی زیورات کی حفاظت کرتیں۔ لیلٰی کا چھوٹا بھائی، زید، ایک سولہ سالہ لڑکا تھا جو سوشل میڈیا پر وقت گزارتا اور گھر کے رازوں کو مذاق سمجھتا تھا۔ ایک دن زید نے ہنستے ہوئے کہا، "دی، یہ گھر تو بھوتوں کا اڈہ لگتا ہے۔ رات کو عجیب سی آوازیں آتی ہیں!" لیلٰی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "زید، یہ آوازیں نہیں، ہمارے گھر کی کہانیاں ہیں۔"
گھر کے قریب ایک پرانا مندر تھا، جہاں ایک بزرگ، بابا نور، رہتے تھے۔ بابا نور ایک صوفی درویش تھے جو لوگوں کو زندگی کے روحانی اسرار سمجھاتے تھے۔ لیلٰی اکثر ان کے پاس جاتی اور ان کی باتیں سنتی۔ بابا نور نے ایک دن کہا، "بیٹی، ہر گھر کی ایک روح ہوتی ہے۔ تمہارا گھر تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔" لیلٰی کے لیے یہ گھر صرف اینٹوں کا ڈھانچہ نہیں تھا؛ یہ اس کے خاندان کی تاریخ، اس کے آباؤ اجداد کی یادیں، اور اس کی اپنی شناخت کا حصہ تھا۔ لیکن اسے ایک عجیب سی بے چینی تھی—جیسے گھر اسے کوئی راز بتانا چاہتا ہو۔
لیلٰی کی زندگی اس گھر کے گرد گھومتی تھی، لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ گھر اسے ایک روحانی سفر پر لے جائے گا، جہاں وہ نہ صرف اپنے خاندان کے رازوں کو کھولے گی بلکہ اپنے دل کی گہرائیوں کو بھی دریافت کرے گی۔
ایک دن، جب لیلٰی گھر کے پرانے تہہ خانے میں کچھ پرانا سامان ڈھونڈ رہی تھی، اسے ایک پرانی لکڑی کی الماری ملی۔ الماری کے اندر ایک دھول بھری ڈبہ تھا، جس میں پرانے خطوط اور ایک پیلے رنگ کا جریدہ تھا۔ خطوط اس کی دادی، زہرا بیگم، کے نام لکھے گئے تھے، اور جریدے میں ایک عجیب سی تحریر تھی جو کسی روحانی رسم کی طرف اشارہ کرتی تھی۔ لیلٰی نے صبا سے پوچھا، "امی، یہ کیا ہے؟ یہ خطوط اور جریدہ کس کا ہے؟" صبا نے گھبراتے ہوئے کہا، "بیٹی، یہ پرانا سامان ہے۔ اسے مت کھولو، کچھ چیزیں چھپی رہنی چاہئیں۔"
لیکن لیلٰی کی تجسس نے اسے روکنے نہ دیا۔ اس نے خطوط پڑھے اور پتہ چلا کہ اس کی دادی ایک روحانی رہنما تھیں، جو لوگوں کو ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتی تھیں۔ لیکن ایک خط میں ایک خوفناک بات لکھی تھی—زہرا بیگم نے ایک راز چھپایا تھا جو گھر کی بنیادوں سے جڑا تھا۔ لیلٰی نے بابا نور سے بات کی، جنہوں نے کہا، "بیٹی، تمہارا گھر ایک پرانے روحانی مقام پر بنایا گیا ہے۔ اس کی توانائی تم سے بات کرتی ہے، لیکن اسے سمجھنے کے لیے تمہیں اپنے دل کو کھولنا ہوگا۔"
اسی رات، لیلٰی نے ایک عجیب خواب دیکھا—ایک سفید لباس میں ملبوس عورت اسے گھر کے تہہ خانے میں لے جا رہی تھی، جہاں ایک چمکتا ہوا پتھر تھا۔ خواب سے جاگ کر لیلٰی خوفزدہ ہو گئی۔ اس نے زید سے کہا، "زید، مجھے لگتا ہے ہمارا گھر کوئی راز رکھتا ہے۔" زید نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا، "دی، تم بھی نانی کی طرح صوفی بن رہی ہو!" لیکن لیلٰی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس راز کو کھولے گی۔ اس نے تہہ خانے میں کھدائی شروع کی، اور وہاں واقعی ایک پتھر ملا، جو عجیب سی روشنی خارج کر رہا تھا۔
لیکن اس دریافت نے گھر میں عجیب واقعات شروع کر دیے۔ رات کو آوازیں آنے لگیں، دروازے خود بخود کھلنے لگے، اور خالد کی طبیعت خراب ہو گئی۔ صبا نے لیلٰی سے کہا، "بیٹی، تم نے وہ پتھر کیوں چھوا؟ یہ گھر اب ہمارے خلاف ہے!" لیلٰی پریشان ہو گئی۔ کیا اس نے کوئی ایسی طاقت کو جگا دیا تھا جو اس کے خاندان کو نقصان پہنچا سکتی تھی؟ وہ بابا نور کے پاس دوڑی اور روتے ہوئے کہا، "بابا، میں نے غلطی کر دی۔ اب کیا کروں؟" بابا نور نے کہا، "بیٹی، یہ کوئی لعنت نہیں، یہ تمہارا روحانی سفر ہے۔ اس پتھر کو واپس اس کی جگہ رکھو، اور اپنے دل سے معافی مانگو۔"
لیلٰی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس راز کو حل کرے گی۔ اس نے زید، صبا، اور خالد کو اکٹھا کیا اور سب کو اپنا خواب سنایا۔ زید نے کہا، "دی، یہ سب تو فلم جیسا ہے، لیکن میں تمہارے ساتھ ہوں۔" لیلٰی نے بابا نور کی رہنمائی میں ایک چھوٹی سی رسم کی، جہاں اس نے پتھر کو واپس تہہ خانے میں رکھا اور اپنے خاندان کی طرف سے معافی مانگی۔ اس نے کہا، "اگر ہم نے کوئی غلطی کی، تو ہمیں معاف کر دیں۔ یہ گھر ہمارا ہے، اور ہم اس کی روح کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔"
عجیب بات یہ ہوئی کہ رسم کے بعد گھر میں سکون لوٹ آیا۔ آوازیں بند ہو گئیں، اور خالد کی طبیعت بہتر ہو گئی۔ لیلٰی نے جریدہ پڑھا اور پتہ چلا کہ اس کی دادی نے اس گھر کو ایک روحانی مرکز بنانے کی خواہش کی تھی، جہاں لوگ سکون ڈھونڈ سکیں۔ لیلٰی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس خواب کو پورا کرے گی۔ اس نے گھر کے ایک حصے کو ایک چھوٹے سے روحانی مرکز میں تبدیل کیا، جہاں لوگ مراقبہ کرتے اور بابا نور کی باتیں سنتے۔
صبا نے فخر سے کہا، "لیلٰی، تم نے ہمارے گھر کی روح کو زندہ کر دیا۔" زید نے مسکراتے ہوئے کہا، "دی، اب یہ گھر واقعی ہمارا ہے۔" لیلٰی نے بابا نور کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا باغ بنایا، جہاں وہ اپنی دادی کی یاد میں پھول لگاتی تھی۔ گھر اب ایک عمارت نہیں، بلکہ ایک روحانی پناہ گاہ بن گیا تھا، جہاں لوگ اپنے دل کا سکون ڈھونڈتے تھے۔ لیلٰی کو احساس ہوا کہ اس کا روحانی سفر اسے نہ صرف اپنے خاندان کے قریب لایا بلکہ اسے اپنی روح سے بھی ملا دیا۔