ایک چھوٹے سے قصبے میں، جہاں پرانے بانسوں کے جھولوں کی آوازیں اور شام کی چائے کی خوشبو گلیوں میں گھلتی تھی، ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام عادل تھا۔ عادل کی عمر تیس سال کے قریب تھی، اور وہ ایک مقامی اسکول میں استاد تھا۔ اس کی ہنسی اور بے تکلف طبیعت قصبے کے ہر فرد کو پسند تھی، لیکن اس کی ایک عادت سب کو حیران کرتی تھی—وہ ہر بات کو مذاق میں کہہ دیتا، چاہے موقع ہو یا نہ ہو۔ اس کی یہ عادت کبھی کبھار لوگوں کو ہنسی دیتی، تو کبھی پریشانی کا باعث بنتی۔
عادل کے والد، منیر، ایک پرانے کپڑوں کے تاجر تھے جو اپنی دکان پر گاہکوں سے گپ شپ لگانا پسند کرتے تھے۔ عادل کی ماں، نسرین، ایک گرم جوش خاتون تھیں جو قصبے کی عورتوں کے ساتھ مل کر خیراتی کام کرتی تھیں۔ عادل کی بہن، صفیہ، ایک کالج کی طالبہ تھی جو اپنے بھائی کی عادت سے تنگ آ چکی تھی۔ ایک دن صفیہ نے کہا، "بھائی، تم ہر وقت مذاق کیوں کرتے ہو؟ کبھی سنجیدہ بھی ہو جایا کرو!" عادل نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "صفیہ، زندگی ایک مذاق ہے، بس اسے ہلکا پھلکا رکھنا پڑتا ہے۔"
قصبے میں عادل کا ایک پرانا دوست تھا، راشد، جو ایک چھوٹی سی چائے کی دکان چلاتا تھا۔ راشد عادل کا رازدان تھا اور اس کی ہر بات کو سنجیدگی سے سنتا تھا۔ راشد نے ایک دن عادل سے کہا، "عادل، تمہاری باتیں دلچسپ ہیں، لیکن کبھی کبھار سوچ کر بولا کرو۔ ہر بات ہنسی مذاق نہیں ہوتی۔" عادل نے مسکراتے ہوئے کہا، "راشد، فکر نہ کرو، میری باتیں تو ہوا میں اڑ جاتی ہیں۔" لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی ایک بے موقع بات اس کی زندگی اور خاندان کو ہلا کر رکھ دے گی۔
عادل کی زندگی ہنسی مذاق اور قصبے کی سادگی کے گرد گھومتی تھی، لیکن اس کی بے فکری اسے ایک ایسی راہ پر لے جانے والی تھی جہاں اسے اپنی باتوں کی طاقت اور ذمہ داری کا احساس ہونے والا تھا۔
ایک دن قصبے میں ایک بڑی تقریب ہونی تھی—قصبے کے سب سے معزز شخص، چوہدری سعید، کی بیٹی کی شادی۔ چوہدری سعید ایک نیک دل آدمی تھے، لیکن ان کی عزت قصبے میں سب سے زیادہ تھی۔ عادل کو بھی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا، جہاں وہ اپنی عادت کے مطابق ہنسی مذاق کر رہا تھا۔ جب چوہدری سعید نے اسے اپنی بیٹی سے ملوایا، عادل نے مذاق میں کہا، "چوہدری صاحب، آپ کی بیٹی تو ایسی ہے کہ دولہا بھاگ نہ جائے!" یہ بات اس نے ہنستے ہوئے کہی، لیکن اسے احساس نہیں تھا کہ دولہا کا خاندان قریب ہی کھڑا تھا اور اس کی بات سن چکا تھا۔
دولہے کے والد، حاجی اسلم، نے یہ بات دل پر لے لی۔ انہوں نے چوہدری سعید سے کہا، "یہ کیا بے ہودگی ہے؟ ہمارے خاندان کی توہین کی گئی!" چوہدری سعید نے عادل سے معافی مانگنے کو کہا، لیکن عادل نے ہنستے ہوئے کہا، "ارے، یہ تو بس مذاق تھا!" اس بات نے آگ میں گھی ڈال دیا۔ حاجی اسلم نے شادی منسوخ کر دی، اور قصبے میں افواہ پھیل گئی کہ عادل کی وجہ سے چوہدری سعید کی بیٹی کی زندگی برباد ہو گئی۔
عادل کے گھر میں بھی طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ نسرین نے روتے ہوئے کہا، "عادل، تم نے ہماری عزت مٹی میں ملا دی!" صفیہ نے غصے سے کہا، "بھائی، تمہارا مذاق اب حد سے بڑھ گیا۔ اب کیا کرو گے؟" عادل نے سر جھکاتے ہوئے کہا، "امی، صفیہ، میں نے تو بس ہنسی کی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یہ بات اتنی بڑھ جائے گی؟" لیکن نقصان ہو چکا تھا۔ قصبے کے لوگوں نے عادل سے فاصلہ بنانا شروع کر دیا، اور اسکول میں اس کی ساکھ متاثر ہوئی۔
عادل نے راشد سے بات کی، "راشد، میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ میری ایک بات سے یہ سب ہو جائے گا۔" راشد نے سنجیدگی سے کہا، "عادل، باتیں طاقتور ہوتی ہیں۔ تمہیں اپنی زبان پر قابو رکھنا ہوگا۔" عادل نے فیصلہ کیا کہ وہ اس نقصان کی تلافی کرے گا، لیکن اسے نہیں پتا تھا کہ یہ راستہ کتنا مشکل ہوگا۔
عادل نے سب سے پہلے چوہدری سعید کے گھر جا کر معافی مانگی۔ اس نے کہا، "چوہدری صاحب، میری بات بے موقع تھی، لیکن میرا ارادہ کسی کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔" چوہدری سعید نے کہا، "عادل، معافی مانگنا آسان ہے، لیکن نقصان کی تلافی مشکل ہے۔" عادل نے وعدہ کیا کہ وہ سب کچھ ٹھیک کرے گا۔ اس نے حاجی اسلم سے ملنے کا فیصلہ کیا، لیکن حاجی اسلم نے اسے ملنے سے انکار کر دیا۔
عادل نے راشد اور صفیہ کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ اس نے قصبے کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی، جہاں اس نے سب کے سامنے اپنی غلطی تسلیم کی۔ اس نے کہا، "میں نے ایک بے موقع بات کہہ کر سب کو تکلیف دی۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب ہر بات سوچ سمجھ کر بولوں گا۔" اس کی ایمانداری نے لوگوں کے دل چھو لیے۔ صفیہ نے کہا، "بھائی، تم نے ہمت دکھائی۔ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
عادل نے حاجی اسلم کے بیٹے، دولہے، سے ملاقات کی اور اسے اپنی بات کی حقیقت بتائی۔ دولہا، جو ایک نیک دل لڑکا تھا، نے کہا، "عادل بھائی، میں آپ کی بات کو غلط نہیں سمجھتا۔ بس ہمارے والد کو غصہ آ گیا تھا۔" عادل کی کوششوں سے حاجی اسلم نے بھی معافی قبول کی، اور شادی دوبارہ طے ہو گئی۔ قصبے میں عادل کی عزت بحال ہوئی، اور لوگوں نے اس کی ایمانداری کی تعریف کی۔
عادل نے اپنی عادت بدل لی۔ وہ اب ہر بات سوچ سمجھ کر کہتا، اور اس کی باتیں اب لوگوں کو ہنسانے کے ساتھ ساتھ متاثر بھی کرتی تھیں۔ راشد نے مسکراتے ہوئے کہا، "عادل، اب تمہاری باتیں واقعی ہوا میں نہیں اڑتیں۔" عادل نے جواب دیا، "راشد، میں نے سیکھ لیا کہ ایک بات کتنی طاقتور ہوتی ہے۔" قصبے میں ایک بار پھر ہنسی کی لہر دوڑ گئی، اور عادل کی بے موقع بات نے اسے زندگی کا ایک بڑا سبق سکھایا۔