ایک چھوٹے سے قصبے میں، جہاں ندی کنارے بہتی تھی اور شام کو پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں گونجتی تھی، ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام عامر تھا۔ عامر کی عمر پینتیس سال تھی، اور وہ ایک چھوٹی سی آئی ٹی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ وہ ایک پرسکون طبیعت کا مالک تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں ماضی کی یادیں ہمیشہ جھلکتی تھیں۔ عامر اور اس کے چار دوست—نادیہ، سمیر، رحیم، اور عائشہ—کبھی اس قصبے کے اسکول میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ وہ پانچوں ایک دوسرے کے لیے سب کچھ تھے، لیکن کالج کے بعد زندگی نے انہیں الگ الگ راہوں پر دھکیل دیا۔
عامر کے والد، سرفراز، ایک ریٹائرڈ ریلوے افسر تھے جو اب اپنے باغیچے کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ عامر کی ماں، پروین، ایک گرم جوش خاتون تھیں جو اپنے پکوانوں سے سب کو خوش کرتی تھیں۔ عامر کی چھوٹی بہن، زارا، ایک فری لانس رائٹر تھی جو عامر کو ہمیشہ اپنے دوستوں کی کہانیاں سناتی تھی۔ ایک دن زارا نے کہا، "بھائی، تم اپنے پرانے دوستوں سے کیوں نہیں ملتے؟ وہ سب تمہاری زندگی کا حصہ تھے۔" عامر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "زارا، وقت نے ہمیں الگ کر دیا۔ اب سب اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں۔"
قصبے میں ایک پرانا کیفے تھا، جہاں عامر اور اس کے دوست کبھی گھنٹوں گپ شپ کیا کرتے تھے۔ کیفے کا مالک، چاچا یوسف، اب بھی وہی پرانی چائے بناتا تھا اور عامر سے کہتا، "بیٹا، اپنے دوستوں کو واپس لاؤ۔ یہ کیفے تمہاری یادوں سے خالی ہے۔" عامر ہنس دیتا، لیکن اس کے دل میں ایک خواہش تھی کہ وہ اپنے دوستوں سے دوبارہ ملے۔ ایک دن اسے ایک واٹس ایپ گروپ کا نوٹیفکیشن ملا—نادیہ نے پرانے دوستوں کا گروپ بنایا تھا اور سب کو قصبے میں ایک ری یونین کے لیے بلایا تھا۔ عامر کے دل میں ایک عجیب سی خوشی اور بے چینی دونوں جاگ اٹھیں۔
عامر کی زندگی اپنی روزمرہ کی روٹین میں گزر رہی تھی، لیکن یہ ری یونین اسے ماضی کی گلیوں میں لے جانے والی تھی، جہاں پرانے راز اور دوستی کی گرمی دوبارہ زندہ ہونے والی تھی۔
ری یونین کا دن آیا، اور عامر، نادیہ، سمیر، رحیم، اور عائشہ چاچا یوسف کے کیفے میں اکٹھے ہوئے۔ نادیہ اب ایک کامیاب وکیل تھی، سمیر ایک ڈاکٹر بن چکا تھا، رحیم ایک آرٹسٹ تھا، اور عائشہ ایک این جی او چلا رہی تھی۔ سب نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، اور پرانے دنوں کی باتیں شروع ہو گئیں۔ لیکن جلد ہی عامر نے محسوس کیا کہ رحیم کچھ خاموش ہے۔ جب عامر نے پوچھا، "رحیم، سب ٹھیک ہے؟" تو رحیم نے سرد لہجے میں کہا، "ہاں، بس تھک گیا ہوں۔"
رات بڑھنے کے ساتھ باتوں نے ایک سنگین موڑ لیا۔ نادیہ نے ایک پرانا واقعہ یاد کیا جب اسکول کے آخری سال عامر اور رحیم کے درمیان ایک بڑا جھگڑا ہوا تھا۔ نادیہ نے کہا، "عامر، تم نے رحیم کو اس وقت غلط سمجھا تھا۔ اس نے تمہارے لیے بہت کچھ کیا تھا۔" عامر حیران ہوا اور بولا، "نادیہ، یہ کیا بات کر رہی ہو؟ رحیم نے ہی تو مجھ سے دوستی توڑ دی تھی!" رحیم نے غصے سے کہا، "عامر، تم نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا تھا۔ تم نے کبھی میری بات نہیں سنی!"
یہ انکشاف عامر کے لیے ایک دھچکا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اسکول میں ایک پروجیکٹ کی رقم غائب ہو گئی تھی، اور اس نے بغیر سوچے رحیم پر الزام لگایا تھا۔ اس واقعے نے ان کی دوستی کو توڑ دیا تھا۔ عائشہ نے کہا، "عامر، رحیم نے تمہارے لیے اپنا سکالرشپ چھوڑ دیا تھا تاکہ تم کالج جا سکو۔" عامر شرمندہ ہو گیا۔ اس نے رحیم سے کہا، "رحیم، مجھے معاف کر دو۔ مجھے سچ نہیں پتا تھا۔" لیکن رحیم نے کہا، "عامر، اب معافی سے کیا ہوتا ہے؟ برسوں کی تکلیف واپس نہیں آتی۔"
ری یونین جو خوشی سے شروع ہوئی تھی، اب ایک تلخ موڑ پر آ گئی۔ سمیر نے حالات سنبھالنے کی کوشش کی اور کہا، "چلو، سب پرانے زخم نہ کھولو۔ آج ہم یہاں دوستی کے لیے ہیں۔" لیکن رحیم اٹھ کر چلا گیا، اور عامر کے دل میں ایک بوجھ سا پڑ گیا۔ اس نے زارا سے فون پر بات کی، "زارا، میں نے رحیم کے ساتھ بہت غلط کیا۔ اب کیا کروں؟" زارا نے کہا، "بھائی، اگر تم سچے دل سے معافی مانگو اور اپنی غلطی سدھارو، تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
عامر نے فیصلہ کیا کہ وہ رحیم سے معافی مانگے گا اور اپنی غلطی کی تلافی کرے گا۔ اس نے رحیم کے گھر جانے کا فیصلہ کیا، جو قصبے کے دوسرے سرے پر تھا۔ رحیم کے گھر جا کر عامر نے دیکھا کہ رحیم ایک چھوٹے سے اسٹوڈیو میں اپنی پینٹنگز بناتا تھا، لیکن اس کی مالی حالت کمزور تھی۔ عامر نے کہا، "رحیم، میں نے تم پر غلط الزام لگایا۔ تم نے میرے لیے سب کچھ کیا، اور میں نے تمہارا دل توڑا۔ مجھے معاف کر دو۔" رحیم نے خاموشی سے سنا اور کہا، "عامر، برسوں کی دوری کو بھولنا آسان نہیں۔"
عامر نے نادیہ، سمیر، اور عائشہ سے مدد مانگی۔ انہوں نے مل کر رحیم کی پینٹنگز کی ایک نمائش کا اہتمام کیا، جسے قصبے کے لوگوں نے بہت سراہا۔ نمائش کی آمدنی سے رحیم کی مالی مشکلات کم ہوئیں۔ عامر نے نمائش میں سب کے سامنے کہا، "رحیم میرا بھائی ہے۔ میں نے اس سے غلطی کی، لیکن اس کی دوستی میری زندگی کی سب سے بڑی دولت ہے۔" رحیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور اس نے عامر کو گلے لگا لیا۔ اس نے کہا، "عامر، تم نے آج دوستی کی قیمت ادا کر دی۔"
ری یونین نے نہ صرف عامر اور رحیم کی دوستی کو بحال کیا بلکہ پانچوں دوستوں کو ایک بار پھر قریب لایا۔ چاچا یوسف نے کیفے میں ایک خاص شام منعقد کی، جہاں سب نے پرانے دنوں کی باتیں کیں اور ہنسی مذاق کیا۔ زارا نے فخر سے کہا، "بھائی، تم نے ثابت کر دیا کہ سچی دوستی کبھی نہیں مرتی۔" عامر نے مسکراتے ہوئے کہا، "زارا، یہ ری یونین صرف ایک ملاقات نہیں، ہمارے دل جوڑنے کی کہانی ہے۔"
قصبے میں ایک نئی رونق لوٹ آئی۔ عامر اور اس کے دوست اب ہر سال ری یونین مناتے تھے، اور چاچا یوسف کا کیفے ان کی یادوں کا گھر بن گیا۔ عامر نے سیکھ لیا کہ دوستی کی قیمت صرف محبت اور سچائی سے ادا کی جا سکتی ہے، اور اس کی ایک غلطی نے اسے زندگی کا سب سے بڑا سبق سکھایا۔