ایک چھوٹے سے شہر کی تنگ گلیوں میں، جہاں پرانی اینٹوں سے بنی عمارتیں وقت کے ساتھ جھک سی گئی تھیں، اور شام کے وقت ہوا میں مٹی اور دھوئیں کی مہک گھل جاتی تھی، عارف نامی ایک جوان رہتا تھا۔ عارف کی عمر تقریباً تیس برس تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک ایسی گہرائی تھی جو برسوں کی تکلیف اور خاموش غم کی گواہی دیتی تھی۔ وہ ایک چھوٹی سی کتابوں کی دکان کا مالک تھا، جو شہر کے پرانے بازار کے ایک کونے میں واقع تھی۔ اس کی دکان میں پرانی کتابوں کی خوشبو، گرد سے اٹی ہوئی الماریاں، اور کاغذ کے پرانے صفحات کی سرسراہٹ ایک عجیب سا سکون دیتی تھی۔
عارف کے والد، حبیب اللہ، ایک معروف تاجر تھے، لیکن دس سال قبل ایک دھوکے نے ان کی ساری دولت چھین لی تھی۔ یہ دھوکہ ان کے قریبی دوست اور کاروباری شراکت دار، سردار خان، نے دیا تھا، جو اب شہر کا سب سے طاقتور آدمی تھا۔ سردار خان کی بلند و بالا حویلی بازار سے کچھ ہی فاصلے پر تھی، اور اس کی دہشت پورے شہر میں پھیلی ہوئی تھی۔ عارف کی ماں، صائمہ، اس صدمے سے کبھی نہ نکل سکیں اور چند سال بعد چل بسیں۔ عارف نے اپنے والد کی بدحالی اور ماں کی موت کا ذمہ دار سردار خان کو ٹھہرایا، اور اس کے دل میں بدلے کی آگ سلگ رہی تھی۔
بازار میں عارف کے چند دوست بھی تھے۔ ان میں سے ایک تھی زینب، ایک ہنرمند کڑھائی کرنے والی لڑکی جو اپنی دکان پر رنگ برنگے دوپٹوں اور کپڑوں پر جادوئی ڈیزائن بناتی تھی۔ زینب کی ہنسی اور گرم جوشی عارف کے لیے ایک روشنی کی کرن تھی۔ ایک اور کردار تھا مراد، ایک بوڑھا چوکیدار جو بازار کے دروازوں پر رات کو پہرہ دیتا تھا۔ مراد کے پاس شہر کے ہر راز کی کہانی تھی، اور وہ عارف کو اپنا بیٹا سمجھتا تھا۔ ایک دن زینب نے عارف سے ہنستے ہوئے کہا، "عارف بھائی، تمہاری یہ کتابیں پڑھ پڑھ کر تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا؟ کبھی باہر نکل کر ہنسی مذاق بھی کر لیا کرو!" عارف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "زینب، کتابیں میری دنیا ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو میں شاید خود کو بھول جاتا۔"
عارف کی زندگی خاموشی سے گزر رہی تھی، لیکن اس کے دل میں بدلہ لینے کا ایک منصوبہ پک رہا تھا۔ وہ سردار خان کو اس کی دولت، اس کی طاقت، اور اس کی عزت سے محروم کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ کام آسان نہیں ہوگا۔ سردار خان کے پاس پیسہ، طاقت، اور لوگوں کی وفاداری تھی۔ عارف کے پاس صرف اس کا عزم اور چند پرانے دوست تھے۔
ایک دن بازار میں افواہ پھیلی کہ سردار خان نے بازار کی زمین پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ وہ ایک بڑی فیکٹری بنانا چاہتا تھا، جس سے نہ صرف بازار کے دکاندار بے روزگار ہو جاتے، بلکہ شہر کی پرانی ثقافت بھی مٹ جاتی۔ عارف کے لیے یہ خبر ایک موقع تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر وہ سردار خان کے اس منصوبے کو ناکام کر سکتا ہے، تو وہ نہ صرف بازار کو بچائے گا بلکہ سردار خان کی طاقت کو بھی کمزور کر سکتا ہے۔
عارف نے زینب اور مراد سے بات کی۔ زینب نے کہا، "عارف، یہ خطرناک کھیل ہے۔ سردار خان کو چیلنج کرنے کا مطلب ہے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا۔" مراد نے اپنی گہری آواز میں کہا، "بیٹا، سردار خان کے راز بازار کی گلیوں میں چھپے ہیں۔ اگر تم اسے پکڑنا چاہتے ہو تو اس کے ماضی کو کھنگالو۔" عارف نے فیصلہ کیا کہ وہ سردار خان کے کاروبار کے راز تلاش کرے گا، شاید کوئی ایسی بات جو اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکے۔
عارف نے رات کے وقت بازار کی گلیوں میں چھپ کر سردار خان کے آدمیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا شروع کی۔ ایک رات اس نے دیکھا کہ سردار خان کا ایک وفادار ملازم، رشید، رات کے اندھیرے میں کچھ مشکوک پیکجز ایک گودام میں منتقل کر رہا تھا۔ عارف نے مراد سے اس بارے میں بات کی، اور مراد نے بتایا، "یہ گودام سردار خان کا ہے۔ وہاں کچھ غیر قانونی سامان چھپایا جاتا ہے۔" عارف نے سوچا کہ اگر وہ اس سامان کو بے نقاب کر سکتا ہے، تو سردار خان کی گرفت کمزور ہو جائے گی۔
لیکن اس منصوبے میں خطرہ تھا۔ عارف نے زینب سے کہا، "اگر مجھے کچھ ہو گیا تو تم بازار کے لوگوں کو متحد رکھنا۔" زینب نے غصے سے جواب دیا، "عارف، تم اکیلے یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں!" عارف نے مسکراتے ہوئے کہا، "زینب، یہ میرا بدلہ ہے، لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ بازار کو کچھ نہیں ہوگا۔" اس نے ایک مقامی صحافی سے رابطہ کیا اور اسے گودام کی تصاویر دیں، لیکن اس سے پہلے کہ خبر شائع ہوتی، سردار خان کے آدمیوں نے عارف کو پکڑ لیا۔
سردار خان نے عارف سے کہا، "تمہارے والد نے بھی میرے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش کی تھی، اور تم دیکھ چکے ہو کہ اس کا انجام کیا ہوا۔" عارف نے غصے سے جواب دیا، "تم نے میری فیملی کو تباہ کیا، لیکن میں تمہیں یہ بازار تباہ نہیں کرنے دوں گا۔" سردار خان نے ہنستے ہوئے کہا، "تم اکیلے کیا کر سکتے ہو؟" عارف کے لیے یہ ایک مشکل لمحہ تھا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔
عارف کو سردار خان کے آدمیوں نے ایک پرانے گودام میں بند کر دیا، لیکن زینب اور مراد نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ زینب نے بازار کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ایک بڑا احتجاج منظم کیا۔ مراد نے اپنے پرانے رابطوں کے ذریعے پولیس کو گودام کا سراغ دیا، جہاں غیر قانونی سامان ملا۔ پولیس نے سردار خان کو گرفتار کر لیا، اور اس کے کاروبار کے راز کھل کر سامنے آ گئے۔
بازار کے لوگوں نے عارف کو اپنا ہیرو مانا۔ زینب نے اس سے کہا، "عارف، تم نے نہ صرف اپنا بدلہ لیا بلکہ ہمارے بازار کو بھی بچا لیا۔" عارف نے جواب دیا، "یہ بدلہ میرا نہیں، یہ ہم سب کا تھا۔ سردار خان نے ہم سب کے ساتھ زیادتی کی تھی۔" مراد نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹا، تم نے ثابت کر دیا کہ سچائی ہمیشہ جیتتی ہے۔"
سردار خان کی گرفتاری کے بعد بازار میں ایک نئی رونق لوٹ آئی۔ عارف کی کتابوں کی دکان اب ہر روز بچوں اور بڑوں سے بھری رہتی تھی۔ زینب نے اپنی دکان پر ایک نیا ڈیزائن بنایا، جس پر لکھا تھا، "بازار کی روح۔" عارف نے اپنے والد کی یاد میں ایک چھوٹی سی لائبریری کھولی، جہاں غریب بچوں کو مفت کتابیں ملتی تھیں۔ اس نے اپنے دل سے بدلے کی آگ کو نکال دیا، کیونکہ اسے احساس ہوا کہ سچائی اور محبت سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں۔