کہانی گھر

نیا پڑوسی

ایک چھوٹی سی کالونی میں، جہاں گلیوں میں آم کے درختوں کی خوشبو اور بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، ایک خاتون رہتی تھی جس کا نام سعدیہ تھا۔ سعدیہ کی عمر تیس سال تھی، اور وہ ایک گھریلو خاتون تھی جو اپنے دو بچوں، دس سالہ علی اور سات سالہ مہک، کی پرورش کرتی تھی۔ سعدیہ کا شوہر، طارق، ایک بینک ملازم تھا جو صبح سویرے نکلتا اور رات دیر سے گھر لوٹتا۔ سعدیہ کی زندگی اپنے گھر اور پڑوس کے گرد گھومتی تھی، جہاں وہ ہر ایک کے ساتھ مل جل کر رہتی تھی۔ لیکن اس کی ایک عادت تھی—وہ نئے لوگوں سے فوراً اعتماد نہیں کرتی تھی۔

سعدیہ کے والدین، بشیر اور آمنہ، قریب ہی رہتے تھے اور اکثر اس کے گھر آتے تھے۔ بشیر ایک ریٹائرڈ کلرک تھے جو ہر بات میں حکمت تلاش کرتے تھے۔ آمنہ ایک گرم جوش خاتون تھیں جو پڑوس کی عورتوں کے ساتھ چائے کی محفلیں سجاتی تھیں۔ سعدیہ کی پڑوسن، رخسانہ، اس کی قریبی دوست تھی جو ہمیشہ کالونی کی تازہ خبروں سے آگاہ رکھتی تھی۔ ایک دن رخسانہ نے کہا، "سعدیہ، ہمارے پڑوس میں نیا پڑوسی آنے والا ہے۔ سنا ہے کوئی اکیلا آدمی ہے۔" سعدیہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "دیکھتے ہیں، رخسانہ۔ نئے لوگوں سے تھوڑا سنبھل کر رہنا پڑتا ہے۔"

ایک صبح، جب سعدیہ اپنے بچوں کو اسکول کے لیے تیار کر رہی تھی، اس نے دیکھا کہ پڑوس کے خالی گھر میں ایک ٹرک رکا، اور ایک شخص سامان اتار رہا تھا۔ وہ شخص، جس کا نام حامد تھا، ایک خاموش طبیعت کا لگتا تھا۔ کالونی کے لوگوں نے اس کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔ بشیر نے سعدیہ سے کہا، "بیٹی، اس نئے پڑوسی سے مل کر دیکھو۔ شاید اچھا آدمی ہو۔" لیکن سعدیہ کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ حامد کے خاموش رہنے میں کوئی راز چھپا ہے۔

سعدیہ کی زندگی اپنے خاندان اور پڑوس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے گرد گھومتی تھی، لیکن نئے پڑوسی کے آنے سے اس کی زندگی ایک نئے موڑ پر آنے والی تھی، جہاں وہ اپنی سوچ اور اعتماد کے امتحان سے گزرنے والی تھی۔

چند دن بعد، کالونی میں ایک چھوٹی سی چوری ہوئی—رخسانہ کے گھر سے کچھ زیورات غائب ہو گئے۔ رخسانہ نے فوراً سعدیہ سے کہا، "سعدیہ، مجھے لگتا ہے یہ نیا پڑوسی، حامد، کچھ ٹھیک نہیں۔ وہ ہر وقت اکیلا رہتا ہے، کبھی بات نہیں کرتا۔" سعدیہ نے بھی بغیر سوچے رخسانہ کی بات پر یقین کر لیا۔ اس نے طارق سے کہا، "طارق، یہ حامد مشکوک لگتا ہے۔ ہمیں اپنے گھر کا خیال رکھنا ہوگا۔" طارق نے کہا، "سعدیہ، بغیر ثبوت کے الزام نہ لگاؤ۔ لیکن تم چاہو تو ہم پولیس سے بات کر سکتے ہیں۔"

سعدیہ نے کالونی کے واٹس ایپ گروپ میں حامد کے بارے میں بات پھیلائی، اور جلد ہی پورے پڑوس نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ایک دن علی نے گھر آ کر کہا، "امی، حامد چاچا نے مجھے اسکول سے آتے ہوئے چاکلیٹ دی۔ وہ بہت اچھے ہیں۔" سعدیہ نے غصے سے کہا، "علی، اس سے دور رہو! وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔" لیکن مہک نے کہا، "امی، وہ تو ہمارے کتے کے ساتھ کھیلتے ہیں۔" سعدیہ کا شک اور گہرا ہو گیا۔

ایک شام، جب سعدیہ اپنے گھر کے باہر پودوں کو پانی دے رہی تھی، اس نے حامد کو اپنے گھر کے دروازے پر ایک عجیب سے شخص سے بات کرتے دیکھا۔ اس نے فوراً رخسانہ کو فون کیا، "رخسانہ، اب تو یقین ہو گیا کہ حامد کچھ غلط کر رہا ہے!" رخسانہ نے پولیس کو اطلاع دی، اور پولیس نے حامد سے پوچھ گچھ کی۔ لیکن پتہ چلا کہ وہ شخص حامد کا کزن تھا، جو اسے شہر سے ملنے آیا تھا۔ حامد نے سعدیہ سے کہا، "سعدیہ بھابی، آپ نے مجھ پر بغیر وجہ شک کیا۔ میں تو بس اپنی زندگی جینے کی کوشش کر رہا ہوں۔"

سعدیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے آمنہ سے کہا، "امی، میں نے بغیر سوچے حامد پر الزام لگایا۔ اب کیا کروں؟" آمنہ نے کہا، "بیٹی، غلطی ہر کوئی کرتا ہے، لیکن اسے درست کرنا بڑوں کا کام ہے۔" سعدیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کرے گی، لیکن اسے نہیں پتا تھا کہ یہ راستہ کتنا مشکل ہوگا۔

سعدیہ نے سب سے پہلے حامد کے گھر جا کر معافی مانگی۔ اس نے کہا، "حامد بھائی، میں نے آپ پر غلط الزام لگایا۔ مجھے معاف کر دیں۔" حامد نے مسکراتے ہوئے کہا، "سعدیہ بھابی، کوئی بات نہیں۔ لیکن پڑوس کا رشتہ اعتماد پر بنتا ہے۔" سعدیہ نے وعدہ کیا کہ وہ کالونی میں حامد کی عزت بحال کرے گی۔ اس نے رخسانہ اور دیگر پڑوسیوں کو اکٹھا کیا اور اپنی غلطی تسلیم کی۔ اس نے کہا، "میں نے بغیر ثبوت کے حامد پر شک کیا۔ یہ میری غلطی تھی۔"

سعدیہ نے حامد کو کالونی کے ایک چھوٹے سے تہوار میں مدعو کیا، جہاں سب نے مل کر کھانا کھایا اور باتیں کیں۔ پتہ چلا کہ حامد ایک مصنف تھا جو اپنی کتاب لکھنے کے لیے خاموشی کی تلاش میں اس کالونی میں آیا تھا۔ رخسانہ نے شرمندہ ہو کر کہا، "حامد، ہمیں معاف کر دو۔ ہم نے تمہیں غلط سمجھا۔" حامد نے ہنستے ہوئے کہا، "رخسانہ بھابی، اب ہم سب ایک خاندان ہیں۔"

سعدیہ نے حامد کی کتاب کے لیے ایک چھوٹا سا پروگرام منعقد کیا، جہاں اس نے اپنی کہانیاں پڑھ کر سنائیں۔ کالونی کے بچوں نے حامد کو اپنا ہیرو مان لیا، اور علی نے فخر سے کہا، "امی، حامد چاچا بہت اچھے ہیں!" سعدیہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "علی، اب میں نے سیکھ لیا کہ ہر نئے پڑوسی کو ایک موقع دینا چاہیے۔" بشیر نے کہا، "بیٹی، تم نے اعتماد کی طاقت کو سمجھ لیا۔"

کالونی میں ایک نئی رونق لوٹ آئی۔ حامد اب ہر تہوار کا حصہ بنتا تھا، اور سعدیہ نے اپنی عادت بدل لی—وہ اب نئے لوگوں پر شک کرنے سے پہلے ان سے بات کرتی تھی۔ حامد نے اپنی کتاب سعدیہ اور کالونی کے پڑوسیوں کو وقف کی، اور اس کی کہانی نے سب کو متاثر کیا۔ سعدیہ نے سیکھ لیا کہ ایک نئے پڑوسی کی آمد نہ صرف ایک نئی کہانی لاتی ہے بلکہ اعتماد اور دوستی کی نئی شروعات بھی کرتی ہے۔