ایک چھوٹے سے شہر میں، جہاں گلیوں میں پھولوں کی خوشبو اور بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، ایک خاندان رہتا تھا جس کا سربراہ ارسلان تھا۔ ارسلان کی عمر چالیس سال تھی، اور وہ ایک مقامی کالج میں پروفیسر تھا۔ وہ ایک گرم جوش اور ہمدرد شخص تھا، جو اپنے گھر کو ہمیشہ مہمانوں کے لیے کھلا رکھتا تھا۔ اس کی بیوی، سحر، ایک پرائمری اسکول کی ٹیچر تھی، جو اپنی نرم طبیعت اور کھانا پکانے کے شوق کے لیے مشہور تھی۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں، پندرہ سال کی حنا اور دس سال کی ایشل، جو اپنے والدین کی طرح مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔
ارسلان کے والد، منظور، ایک ریٹائرڈ فوجی افسر تھے جو اب اپنا وقت کتابیں پڑھنے اور باغبانی میں گزارتے تھے۔ ان کی ماں، زہرہ، ایک بزرگ خاتون تھیں جو اپنی کہانیوں سے سب کو محظوظ کرتی تھیں۔ ارسلان کی قریبی دوست، ماہم، ایک مقامی این جی او میں کام کرتی تھی اور اکثر ارسلان کے گھر مہمانوں کی آمد پر رشک کرتی تھی۔ ایک دن ماہم نے کہا، "ارسلان، تمہارا گھر تو مہمان خانہ ہے! کبھی کوئی خاص مہمان بھی آئے گا؟" ارسلان نے ہنستے ہوئے کہا، "ماہم، ہر مہمان خاص ہوتا ہے، بس اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔"
شہر میں ایک بزرگ، بابا قاسم، رہتے تھے جو اپنی حکمت بھری باتوں کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے ایک دن ارسلان سے کہا، "بیٹا، مہمان اللہ کی رحمت ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھار وہ راز بھی لے کر آتا ہے۔" ارسلان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "بابا، ہمارے گھر ہر مہمان کا خیر مقدم ہے۔" ایک دن، جب ارسلان اپنی فیملی کے ساتھ رات کے کھانے کی تیاری کر رہا تھا، دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولتے ہی ایک اجنبی کھڑا تھا، جس نے کہا کہ وہ شہر میں نیا ہے اور رات گزارنے کی جگہ ڈھونڈ رہا ہے۔ ارسلان نے اسے اندر بلایا، لیکن اسے نہیں پتا تھا کہ یہ مہمان اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔
ارسلان کا گھر ہمیشہ مہمانوں سے بھرا رہتا تھا، لیکن اس "خاص مہمان" کی آمد ایک ایسی کہانی شروع کرنے والی تھی جو خاندان اور رازوں کو جوڑے گی۔
مہمان کا نام عادل تھا، ایک پچاس سالہ شخص جو خاموش طبیعت کا مالک تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک پرانا سفرنامہ لکھ رہا ہے اور شہر کے تاریخی مقامات دیکھنے آیا ہے۔ ارسلان اور سحر نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا، اور حنا و ایشل اس کی کہانیوں سے متاثر ہوئیں۔ لیکن دوسرے دن، جب عادل گھر سے باہر گیا، حنا نے اس کے بیگ میں ایک پرانا خط دیکھا جس پر ارسلان کے والد منظور کا نام لکھا تھا۔ حنا نے سحر سے کہا، "امی، یہ خط دادا کے نام ہے۔ کیا عادل چاچا کو ہم سے پہلے سے کوئی تعلق ہے؟" سحر نے کہا، "حنا، تمہارا واہمہ ہے۔ لیکن ہم پوچھیں گے۔"
ارسلان نے عادل سے خط کے بارے میں پوچھا، تو عادل نے کہا، "ارسلان، یہ خط میری ماں کا تھا۔ وہ منظور صاحب کی دوست تھیں۔" لیکن اس کی باتوں میں جھجھک تھی، جس سے ارسلان کو شک ہوا۔ اس نے منظور سے بات کی، "ابو، کیا آپ عادل کو جانتے ہیں؟" منظور نے چپ رہ کر کہا، "بیٹا، یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ میری ایک دوست تھی، لیلیٰ، جو برسوں پہلے شہر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔" ارسلان نے پوچھا، "تو کیا عادل لیلیٰ کا بیٹا ہے؟" منظور نے سر جھکا کر کہا، "شاید، لیکن اس نے کبھی رابطہ نہیں کیا۔"
اچانک شہر میں افواہ پھیل گئی کہ عادل کوئی مشکوک شخص ہے۔ ماہم نے ارسلان سے کہا، "ارسلان، تم نے ایک اجنبی کو گھر میں پناہ دی۔ اگر وہ خطرناک ہوا تو؟" ارسلان پریشان ہو گیا۔ اس نے عادل سے کہا، "عادل، تم ہمیں سچ بتاؤ۔ تم یہاں کیوں آئے ہو؟" عادل نے کہا، "ارسلان، میں تمہارے والد سے ایک پرانا وعدہ پورا کرنے آیا ہوں۔ لیکن ابھی وقت نہیں آیا۔" اس جواب نے ارسلان کے شک کو اور بڑھا دیا۔ حنا نے ایشل سے کہا، "ایشل، یہ مہمان خاص ہے، لیکن اس کے راز ہمیں پریشان کر رہے ہیں۔" تناؤ بڑھتا گیا، اور ارسلان کا خاندان ایک عجیب کشمکش میں پھنس گیا۔
سحر نے بابا قاسم سے مشورہ کیا، جنہوں نے کہا، "سحر، مہمان کا دل پڑھو۔ اگر اس کی نیت صاف ہے، تو اسے موقع دو۔" لیکن ارسلان کے دل میں بے چینی تھی۔ کیا عادل واقعی ایک دوست تھا، یا اس کے آنے سے کوئی بڑا راز کھلنے والا تھا؟
ارسلان نے فیصلہ کیا کہ وہ عادل سے کھل کر بات کرے گا۔ اس نے عادل کو رات کے کھانے پر بلایا اور کہا، "عادل، ہمیں سچ بتاؤ۔ تمہارا ہمارے خاندان سے کیا رشتہ ہے؟" عادل نے ایک گہری سانس لی اور کہا، "ارسلان، میں تمہارا سوتیلا بھائی ہوں۔ میری ماں لیلیٰ اور منظور صاحب کی شادی ہوئی تھی، لیکن کچھ حالات کی وجہ سے وہ الگ ہو گئے۔ میری ماں نے مجھے بتایا کہ منظور صاحب نے ایک وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک دن اپنے بیٹے سے ملوائیں گے۔" یہ انکشاف ارسلان اور اس کے خاندان کے لیے ایک دھچکا تھا۔
منظور نے شرمندہ ہو کر کہا، "ارسلان، میں نے تم سے یہ بات چھپائی کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ تمہارا دل ٹوٹے گا۔" ارسلان نے غصے اور غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا، "ابو، آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا؟" لیکن سحر نے ارسلان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "ارسلان، عادل ہمارا مہمان ہے، اور اب وہ ہمارا خاندان ہے۔" ارسلان نے عادل سے معافی مانگی اور کہا، "عادل، تم ہمارے گھر کے خاص مہمان ہو۔ اب تم ہمارے ساتھ رہو۔"
ارسلان نے شہر کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور عادل کو اپنے بھائی کے طور پر متعارف کرایا۔ ماہم نے کہا، "ارسلان، تم نے ثابت کر دیا کہ مہمان نوازی دل سے دل تک جاتی ہے۔" حنا اور ایشل نے عادل کو اپنا بڑا بھائی مان لیا، اور زہرہ نے کہا، "عادل، تم نے ہمارا خاندان مکمل کر دیا۔" بابا قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا، "ارسلان، تمہارا مہمان واقعی خاص تھا۔"
عادل شہر میں رہنے لگا اور ارسلان کے خاندان کا حصہ بن گیا۔ اس نے اپنا سفرنامہ مکمل کیا، جس میں اس نے ارسلان کے خاندان کی مہمان نوازی کی کہانی لکھی۔ حنا نے فخر سے کہا، "ابو، ہمارا گھر واقعی مہمان خانہ ہے!" ارسلان نے مسکراتے ہوئے کہا، "حنا، یہ مہمان خاص نے ہمیں ایک نیا رشتہ دیا۔" شہر میں ارسلان کے گھر کی مہمان نوازی کی داستانیں اور مشہور ہو گئیں، اور عادل کی آمد نے نہ صرف ایک راز کھولا بلکہ ایک خاندان کو جوڑ دیا۔