وہ ایک خوبصورت دوپہر تھی جب زینب نے اپنا نیا اسمارٹ فون کھولا۔ سونے کے رنگ کا وہ چمکدار ڈبہ اس کی زندگی میں داخل ہونے والے ایک ایسے سفر کا آغاز تھا جس کا اسے خود بھی کوئی اندازہ نہیں تھا۔ باکس کھلتے ہی ایک نئی ایجاد کی خوشبو اس کے حصے میں آئی، وہ خوشبو جو ہر نئی چیز کے ساتھ آتی ہے، امیدوں، خوابوں اور بے انتہا ممکنات کی خوشبو۔ اس نے فون کو نرمی سے ہاتھوں میں تھاما، اس کا گلوسی اسکرین اس کے چہرے کی عکاسی کر رہا تھا۔ اس نے سوچا، "یہ تو جادو ہے۔"
زینب ایک ہونہار طالبہ تھی، کالج میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں بھی ماہر۔ اس کا معمول بہت منظم تھا۔ صبح نماز فجر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت، پھر ناشتہ اور کالج جانے کی تیاری۔ شام کو گھر واپسی، ماں کا ہاتھ بٹانا، پھر مطالعہ اور رات کو جلدی سونا۔ اس کی زندگی ایک ترتیب سے بندھی ہوئی تھی جیسے کوئی خوبصورت غزل، ہر شعر اپنی جگہ پر، ہر لفظ باوزن۔
پہلے ہفتے میں فون صرف ضرورت کی چیز تھا۔ فون کالز، ماں باپ کو بتانا کہ کالج پہنچ گئی ہوں، دوستوں سے ضروری بات چیت، اور کبھی کبھار کوئی تصویر کھینچنا۔ لیکن پھر اس نے سوشل میڈیا کی ایپس ڈاؤن لوڈ کیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اس کی زندگی کی کشتی ایک ایسی لہر سے ٹکرائی جس کی طاقت کا اسے اندازہ نہ تھا۔
سب سے پہلے تو وہ پرانی دوستوں سے جا ملی۔ پھر دوستوں کے دوست، پھر ان کے دوست۔ اچانک اس کی دنیا ایک کمرے سے نکل کر ایک ایسی وسیع و عریض دنیا میں بدل گئی جہاں ہر کوئی مسکراتا، اچھے کپڑے پہنے، سیاحت کرتا اور مزیدار کھانے کھاتا دکھائی دیتا۔ ہر اسکرول کے ساتھ ایک نیا موازنہ، ایک نئی خواہش۔ اسے لگا جیسے وہ ایک ایسی پارٹی میں کھڑی ہے جہاں سب نے اسے بلایا تو نہیں لیکن وہ کھڑی ہو کر سب کو دیکھ ضرور رہی ہے۔
کچھ ہی عرصے میں اس کی صبح کی پہلی عادت بدل گئی۔ اب آنکھ کھلتے ہی قرآن پاک کی تلاوت نہیں ہوتی تھی، بلکہ فون کی اسکرین چیک کرنا ہوتا تھا۔ یہ دیکھنا کہ رات بھر میں کس کس نے اس کے پوسٹ کو لایک کیا، کس نے کمنٹ کیا، کس نے اسٹوری دیکھی۔ ایک عدد کی خاطر وہ اپنی صبح کی پہلی سانسوں کو بھی نظر انداز کرنے لگی۔ نماز فجر کا وقت ٹلنے لگا، پھر بالکل ہی رہ گیا۔
کالج میں لیکچرز کے دوران اس کا دماغ لیکچرر کی بجائے اس بات میں مصروف رہتا کہ اس کی latest پوسٹ کو کتنے لایکس ملے ہیں۔ وہ جوابی comments لکھنے میں ایسی مگن ہو جاتی کہ پوری کلاس کے notes سے محروم رہ جاتی۔ پہلے وہ ہر بات نوٹ کرتی تھی، اب وہ ہر بات کی تصویر کھینچتی تھی، یہ سوچ کر کہ بعد میں دیکھ لے گی، لیکن وہ "بعد" کبھی نہ آتا۔
راتیں لمبی ہونے لگیں۔ ایک وقت تھا جب وہ دس بجے سو جاتی تھی، اب بارہ بجے، پھر ایک بجے، اور پھر تو دو بجے بھی نیند آنے میں دیر لگتی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، سر میں درد رہنے لگا، لیکن وہ اسکرین سے چمٹی رہتی۔ ہر notification ایک چھوٹی سی جیت محسوس ہوتی، ایک تسکین کا احساس۔ اسے لگتا کہ وہ دنیا سے جڑی ہوئی ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ اپنے آس پاس کی دنیا سے کٹتی جا رہی تھی۔
اس کے والدین نے پہلی بار تب نوٹس لیا جب کھانے کی میز پر وہ خاموش رہتی، جلدی جلدی کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ ماں کی پیاری باتیں، باپ کے روزمرہ کے قصے، اس کے لیے اب بوریت کا باعث بننے لگے تھے۔ وہ ان کی باتوں کو سنتی تو تھی، لیکن اس کا دھیان اس کے ہاتھ میں تھما ہوا فون ہوتا، جسے وہ مسلسل چیک کرتی رہتی۔
ایک دن اس کے والد نے نرمی سے کہا، "بیٹا، کھانے کے وقت فون استعمال مت کیا کرو، یہ تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔"
زینب نے جواب دیا، "ابا جان، بس ایک میسج کا جواب دے رہی ہوں، دو منٹ۔" لیکن وہ دو منٹ دو گھنٹے میں بدل گئے۔ والدین کی نظریں ایک دوسرے سے ملتیں، ان کے چہروں پر فکر کے بادل چھا جاتے، لیکن وہ کچھ نہ کہتے۔
اس کی پڑھائی متاثر ہونے لگی۔ پہلے جہاں وہ کلاس میں اول آتی تھی، اب اس کے نمبر گرنے لگے۔ استانیاں اسے ٹوکنے لگیں، "زینب، پڑھائی پر توجہ دو، تمہارے اندر کا جوہر ہے، اسے ضائع مت ہونے دو۔" وہ شرمندہ ہوتی، کچھ دنوں کے لیے فون کم استعمال کرتی، لیکن پھر وہی دنیا اسے اپنی طرف کھینچ لیتی۔ یہ ایک ایسا چکر تھا جس سے نکلنا اس کے لیے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
ایک رات، جب پورا گھار سو چکا تھا، زینب اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور فون کی اسکرین سے نکلنی والی نیلی روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ ایک ویڈیو دیکھ رہی تھی، پھر دوسری، پھر تیسری۔ اچانک اس کا سینا جکڑ گیا۔ سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنا شروع ہو گیا۔ اس کے ہاتھوں میں کپکپی طاری ہو گئی۔ اسے لگا جیسے وہ ڈوب رہی ہے۔ اس نے فون بستر پر گرا دیا اور چلائی، "امی! ابا!"
اس کے والدین دوڑے ہوئے آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی کانپ رہی ہے، اس کا چہرہ سفید پڑ گیا ہے، اور آنکھوں میں خوف کے آثار ہیں۔ اسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے معائنہ کیا، ٹیسٹ کیے، اور پھر کہا، "یہ اینگزائٹی اٹیک ہے۔ شدید ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی کی وجہ سے۔"
ہسپتال سے واپسی پر، اس کے والد نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور پیار سے کہا، "بیٹا، یہ چھوٹی سی ڈبیاں ہماری زندگیوں کو کیسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ہم نے تمہیں یہ فون خوشی دلانے کے لیے دیا تھا، تمہیں تکلیف پہنچانے کے لیے نہیں۔"
زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے سچ میں کبھی اس طرح سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ جانتے ہوئے بھی کہ فون اس کے لیے اچھا نہیں ہے، وہ اس کے بغیر رہ نہیں پا رہی تھی۔ یہ ایک لت بن چکی تھی۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اس لت پر قابو پائے گی۔ اس نے سب سے پہلے اپنے فون سے تمام سوشل میڈیا ایپس ڈیلیٹ کیں۔ پہلے پہل تو اسے عجیب سا محسوس ہوا۔ ہاتھ بے چین ہوتے، بار بار فون اٹھاتا، لیکن وہ ایپس وہاں نہیں ہوتیں۔ اس نے اپنا فون اپنی ماں کے پاس رکھوا دیا اور صرف ضرورت پڑنے پر ہی مانگا۔
شروع کے چند دن بہت مشکل تھے۔ وہ چڑچڑی ہو گئی تھی، اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کا کوئی قریبی دوست اس سے بچھڑ گیا ہو۔ لیکن پھر اس نے اپنے آپ کو مصروف رکھنا شروع کیا۔ اس نے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا، نمازوں کی پابندی کی، ماں کے ساتھ کچن میں وقت گزارا، باپ کے ساتھ شام کی سیر پر جانے لگی۔
ایک ہفتے بعد، اسے احساس ہوا کہ اس کا سر درد غائب ہو گیا ہے۔ وہ پہلی بار بغیر الارم کے تازہ دم ہو کر اٹھی۔ اس کی آنکھیں پہلے سے زیادہ چمکدار تھीं۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ واقعی "موجود" ہے۔ کھانے کی میز پر وہ اپنے والدین کی باتوں میں حصہ لیتی، ان سے کالج کے واقعات سناتی۔ اس کے گھر میں وہ پرانی رونقیں واپس آ گئیں۔
اس نے اپنی پڑھائی پر دوبارہ توجہ مرکوز کی۔ اسے احساس ہوا کہ حقیقی کامیابی اور تسکین سوشل میڈیا کے لایکس میں نہیں، بلکہ اپنے مقاصد کو پانے میں ہے۔ اس کے نمبر بہتر ہونے لگے، اساتذہ کی تعریف دوبارہ اس کا مقدر بنی۔
ایک مہینے بعد، اس نے اپنا فون واپس لیا، لیکن اب وہ اسے ایک آلے کے طور پر دیکھتی تھی، ایک آقا کے طور پر نہیں۔ اس نے ایپس کو دوبارہ ڈاؤن لوڈ کیا، لیکن اب اس کا استعمال محدود تھا۔ وہ دن میں صرف ایک گھنٹہ ہی سوشل میڈیا کے لیے مخصوص کرتی۔
زینب نے اپنے تجربے کو دوسروں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک بلاگ لکھنا شروع کیا جس کا نام تھا "حقیقی دنیا کی طرف واپسی"۔ اس میں اس نے اپنی کہانی بیان کی، فون کی لت کے نقصانات گنوائے، اور اس پر قابو پانے کے طریقے بتائے۔ اس کا بلاگ مقبول ہوا، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس سے رابطہ کرنے لگے، اپنے مسائل بیان کرنے لگے۔
آج زینب ایک بہتر انسان بن چکی ہے۔ اس نے سیکھ لیا ہے کہ ٹیکنالوجی ایک بہترین خادم ہے لیکن ایک بہت برا آقا۔ وہ اپنا وقت اپنے خاندان، اپنی تعلیم اور اپنے رب کی عبادت میں گزارتی ہے۔ اس کا فون اب اس کی زندگی کا مرکز نہیں، بلکہ صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
اس کی کہانی ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ڈیجیٹل آلات ہمارا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حقیقی تعلقات، حقیقی جذبات، اور حقیقی زندگی کی خوبصورتی ہی اصل دولت ہے۔ فون کی لت ایک خاموش قاتل ہے جو ہمارا وقت، ہماری توانائی، اور ہماری توجہ چرا لیتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس پر قابو پائیں، ورنہ یہ ہم پر قابو پا لے گی۔
زینب کی کہانی کا اختتام اس کے اپنے الفاظ میں: "میں نے اپنا فون کھویا نہیں، میں نے اپنی زندگی واپس پائی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر لمحہ، ہر سانس، ہر مسکان قیمتی ہے۔ میں نے سیکھا کہ زندگی اسکرین کے پیچھے نہیں، بلکہ اس کے باہر ہے۔ اور میں نے یہ عہد کیا ہے کہ میں اپنی آنکھیں اسکرین پر نہیں، بلکہ اپنے آس پاس کی خوبصورتی پر مرکوز رکھوں گی۔"
اور یوں، زینب نے نہ صرف اپنی لت پر قابو پایا، بلکہ دوسروں کے لیے روشنی کا مینار بھی بن گئی۔ اس نے ثابت کیا کہ اگر عزم اور ارادہ ہو تو انسان کسی بھی مشکل پر قابو پا سکتا ہے، چاہے وہ فون کی لت ہی کیوں نہ ہو۔