کہانی گھر

بھولکڑ بابا

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک گھنا جنگل تھا جس کے درمیان ایک چھوٹا سا پر سکون گاؤں آباد تھا۔ اس گاؤں کا نام تھا "خاموش واڑی"۔ یہاں کے لوگ بہت محنتی اور خوش مزاج تھے۔ ان کی زندگیاں امن اور سکون سے بسر ہو رہی تھیں، سوائے ایک چھوٹی سی مشکل کے۔ اور وہ مشکل تھی ان کا ایک ہمسایہ، جو کہ گاؤں سے تھوڑا دور ایک چھوٹی سی پہاڑی پر ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ اس کا نام تو کوئی نہیں جانتا تھا، سب اسے "بھولکڑ بابا" کے نام سے پکارتے تھے۔

بھولکڑ بابا، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر تھا، تاریخ کے سب سے بڑے بھولنے والے انسان تھے۔ ان کی بھول چک کی مثال آپ کو دنیا کے کسی کونے میں نہ ملتی۔ وہ نہ صرف چھوٹی چھوٹی باتین بھولتے، بلکہ بعض اوقات ایسی ایسی باتین بھول جاتے جن پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا۔ ایک دن وہ اپنی ہی جھونپڑی کا رستہ بھول گئے اور تین گھنٹے جنگل میں گھومتے رہے، یہاں تک کہ ایک چرواہے نے انہیں پہچان لیا اور واپس لے آیا۔ ایک بار وہ جنگل سے لکڑیاں چُن کر لائے، مگر جھونپڑی کے باہر انہیں ڈھیر لگا کر وہ بھول گئے کہ یہ کیا ہے اور پھر اگلے دن انہیں دوبارہ لکڑیاں لینے جنگل چلے گئے۔

ان کی سب سے مشہور عادت یہ تھی کہ وہ بات کرتے کرتے درمیان میں ہی سب کچھ بھول جاتے۔ کوئی ان سے پوچھتا، "بابا جی، آج کھانے میں کیا بنایا ہے؟" وہ جواب دینے لگتے، "ہاں بیٹا، میں نے تو آج..." اور پھر وہیں رک جاتے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگتے، ماتھے پر بل پڑ جاتے، مگر جواب بھول چکے ہوتے۔ پھر ایک گہری سانس لے کر کہتے، "خیر، کوئی بات نہیں۔ تم نے کیا پوچھا تھا؟"

گاؤں والے ابتدا میں تو بہت پریشان ہوتے تھے۔ بھولکڑ بابا اکثر گاؤں آتے اور پھر واپس جانے کا رستہ بھول جاتے۔ کوئی انہیں چھوڑنے نہ جاتا تو وہ رات گاؤں کے چوپال میں ہی گزار دیتے۔ کبھی وہ کسی کے ہاں کھانا کھانے چلے جاتے اور کھانا کھا کر بھول جاتے کہ انہوں نے کھانا کھایا ہے اور پھر دوبارہ کھانا مانگنے لگتے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، سب ان کی اس عادت کے عادی ہو گئے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ بھولکڑ بابا کا دل تو سونے جیسا ہے، بس یادداشت کا تھوڑا سا مسئلہ ہے۔ بچے ان سے پیار کرتے، بڑے ان کا احترام کرتے۔ سب نے مل کر یہ طے کر لیا تھا کہ وہ ان کی دیکھ بھال کریں گے۔

ایک صبح، جب سورج کی کرنیں پہاڑیوں کی چوٹیوں کو چوم رہی تھیں اور پرندے میٹھے میٹھے نغمے گا رہے تھے، بھولکڑ بابا اپنی جھونپڑی کے باہر ایک کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنا چہرہ سورج کی طرف کیا ہوا تھا اور آنکھیں بند کر کے کچھ سوچ رہے تھے۔ اچانک ان کی آنکھیں کھلیں۔ ایک عجیب سی چمک ان کی آنکھوں میں تھی، جیسے کوئی پرانی بات یاد آ گئی ہو۔ انہوں نے ایک لمبی سانس لی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ہاں! بالکل! اب یاد آیا!" وہ بڑبڑائے۔ "وہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔"

انہوں نے جلدی سے اپنی جھونپڑی میں داخل ہونا چاہا، مگر دروازہ کھولتے ہی وہ رک گئے۔ انہیں یاد ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کرنے جا رہے تھے۔ وہ واپس کھجور کے درخت کے نیچے آ بیٹھے۔ پھر اچانک ایک بار پھر وہی چمک ان کی آنکھوں میں لوٹ آئی۔

"ہاں! وہ ندی! اس کے پار والا درخت!"

اس بار انہوں نے جلدی کی۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی بوسیدہ سی کتاب اٹھائی جو ان کے بستے کے نیچے دبی ہوئی تھی اور ایک قلم اٹھایا۔ وہ کچھ لکھنا چاہتے تھے کہ کہاں جانا ہے، کیسے جانا ہے، کیا کرنا ہے۔ قلم کاغذ پر رکھا ہی تھا کہ ایک تتلی ان کے سامنے سے گزری۔ بھولکڑ بابا کی توجہ فوراً اس پر مرکوز ہو گئی۔ تتلی کے پیچھے پیچھے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ بھول گئے کہ وہ کچھ اہم کام کر رہے تھے۔ تتلی کو دیکھتے دیکھتے وہ جنگل کی گہرائیوں میں نکل گئے۔

دوسری طرف گاؤں میں، آج ایک خاص دن تھا۔ موسم خزاں کی آمد آمد تھی اور ہر سال کی طرح، گاؤں والے "موسمِ برداشت کی تقریب" منانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ یہ تقریب ہر سال منائی جاتی تھی جس میں وہ فصلیں کاٹنے اور آنے والی سردیوں کے لیے تیاریوں کا جشن مناتے تھے۔ اس تقریب کا سب سے اہم حصہ ہوتا تھا ایک بزرگ کا قصہ سنانا، جو کہ گاؤں کی تاریخ اور روایات سے متعلق ہوتا تھا۔ یہ کام ہمیشہ بھولکڑ بابا کے ذمے ہوتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ بھولکڑ بابا قصہ گوئی میں ماہر تھے۔ جب وہ قصہ سنانا شروع کرتے تو ایک ایک بات انہیں زبانی یاد ہوتی۔ وہ کبھی کوئی بات نہیں بھولتے تھے۔ یہ ان کی زندگی کا واحد شعبہ تھا جہاں ان کی یادداشت نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔

گاؤں کے سرپنچ، چوہدری صاحب، نے اپنی بیٹی زینب سے کہا، "زینب، جاؤ بھولکڑ بابا کو یاد دلاؤ کہ کل کی تقریب میں انہیں خاص قصہ سنانا ہے۔ وہ شاید بھول گئے ہوں گے۔"

زینب چھوٹی سی لڑکی تھی، ہوشیار اور بہادر۔ اسے بھولکڑ بابا سے بہت پیار تھا۔ وہ فوراً ان کی جھونپڑی کی طرف روانہ ہو گئی۔ جب وہ وہاں پہنچی تو جھونپڑی خالی تھی۔ وہ گھبرا گئی۔ بابا کہاں گئے؟ انہیں تو گاؤں سے باہر جانے کی منعہ تھی کیونکہ وہ رستہ بھول جاتے تھے۔

زینب نے گاؤں واپس آ کر یہ بات اپنے والد کو بتائی۔ چوہدری صاحب فکر مند ہو گئے۔ انہوں گاؤں کے چند نوجوانوں کو بلایا اور کہا، "بھولکڑ بابا شاید جنگل میں کہیں بھٹک گئے ہیں۔ تم سب انہیں ڈھونڈنے جاؤ۔ جلدی کرو، شام ہونے سے پہلے انہیں واپس لانا ہے۔"

نوجوانوں کے ایک گروپ نے جنگل میں بابا کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ وہ ان کے نام لے کر پکارتے، مگر کوئی جواب نہیں آتا تھا۔ ادھر بھولکڑ بابا تتلی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ایک ایسی جگہ پہنچ گئے تھے جہاں سے واپسی کا رستہ انہیں بالکل یاد نہیں تھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکے اور اردگرد دیکھنے لگے۔ سب کچھ انجان لگ رہا تھا۔

"افوہ!" وہ بڑبڑائے۔ "میں کہاں آ گیا ہوں؟ میں تو کچھ اور کر رہا تھا۔ کیا کر رہا تھا؟ ہاں، تتلی دیکھ رہا تھا۔ نہیں نہیں، کچھ اور۔ خیر، کوئی بات نہیں۔"

انہوں نے چلنا جاری رکھا۔ کچھ دور جا کر انہیں ایک ندی نظر آئی۔ ندی کے پاس ایک بہت پرانا اور بڑا برگد کا درخت تھا۔ درخت کی جڑیں زمین سے باہر نکل کر عجیب و غریب شکلیں بنا رہی تھیں۔ بھولکڑ بابا اس درخت کے پاس جا کر رک گئے۔ ان کے دل نے دھڑکنا شروع کر دیا۔ یہ جگہ انہیں کسی سے ملتی جلتی محسوس ہو رہی تھی۔

"یہ درخت... میں نے یہ درخت پہلے دیکھا ہے۔" انہوں نے آہستہ سے کہا۔

انہوں نے درخت کو چھوا۔ درخت کی چھال کھردری اور پرانی تھی۔ اچانک، ایک یاد، جیسے کوئی بجلی کا جھٹکا ہو، ان کے دماغ میں کوند گئی۔ انہیں ایک بہت پرانی بات یاد آ گئی۔ بہت ساری یادیں، جو دھندلی سی تھیں، ایک ساتھ ان کے ذہن میں دوڑنے لگیں۔ ایک چھوٹا سا لڑکا... یہی درخت... ایک خزانے کا نقشہ...

"ہاں!" وہ چلائے۔ "اب یاد آیا! یہی تو وہ جگہ ہے!"

انہوں نے جلدی سے درخت کے نیچے کھودنا شروع کیا۔ مٹی نرم تھی اور جلد ہی ان کے ہاتھ کسی چیز سے ٹکرائے۔ یہ ایک پتھر کا صندوقچہ تھا۔ انہوں نے اسے باہر نکالا۔ صندوقچہ بند تھا اور اس پر ایک تالا لگا ہوا تھا۔ بھولکڑ بابا کو یاد آیا کہ تالے کی چابی وہ اپنے گلوبند میں پہنتے ہیں۔ انہوں نے اپنا گلوبند نکالا۔ گلوبند کے ایک لکڑی کے موتی میں سے انہوں نے ایک چھوٹی سی چابی نکالی اور تالہ کھول دیا۔

صندوقچے کے اندر ایک پرانی کتاب تھی۔ کتاب کے صفحات پیلے پڑ چکے تھے اور اس پر بہت سی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ یہ کوئی عام کتاب نہیں تھی۔ یہ ایک ایسی کتاب تھی جس میں بہت سی پرانی حکمتیں، نسخے، اور گاؤں کی تاریخ درج تھی۔ بھولکڑ بابا نے کتاب کو دیکھا اور ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ یہ وہی کتاب تھی جسے وہ سالوں سے تلاش کر رہے تھے۔

اسی وقت، زینب اور نوجوانوں کا گروپ وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے بابا کو دیکھا اور خوشی سے چلائے۔ "بابا! آپ یہاں ہیں! ہم آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے۔"

بھولکڑ بابا نے مسکراتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ "آؤ بیٹا، آؤ۔ دیکھو، میں نے کیا ڈھونڈ نکالا ہے۔"

زینب نے کتاب کو دیکھا۔ "بابا، یہ کیا ہے؟"

"یہ ہمارے گاؤں کی تاریخ ہے، بیٹی۔ بہت پرانی تاریخ۔ میں نے اسے بہت سال پہلے یہاں چھپایا تھا اور پھر بھول گیا تھا۔ آج اچانک یاد آیا۔"

سب حیران تھے۔ بھولکڑ بابا کو کسی چیز کا یاد آنا بذات خود ایک معجزہ تھا۔ وہ سب مل کر گاؤں واپس لوٹے۔ رات ہو چکی تھی اور چاند کی روشنی ان کا رستہ روشن کر رہی تھی۔

اگلے دن، تقریب کا آغاز ہوا۔ گاؤں کے سب لوگ اکٹھے ہوئے۔ کھانے پینے کے سٹال لگے ہوئے تھے۔ بچے کھیل رہے تھے۔ بڑے آپس میں باتchen کر رہے تھے۔ آخر کار وہ وقت آیا جب بھولکڑ بابا کو قصہ سنانا تھا۔ سب نے دیکھا کہ بابا اپنے ہاتھ میں وہ پرانی کتاب لیے ہوئے کھڑے ہیں۔

بھولکڑ بابا نے کتاب کھولی اور قصہ سنانا شروع کیا۔ انہوں نے گاؤں کی بنیاد کی کہانی سنائی۔ کس طرح ان کے آباؤ اجداد یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ کس طرح انہوں نے جنگلی جانوروں اور مشکل موسم کا مقابلہ کیا تھا۔ انہوں نے پرانے ہنروں کے بارے میں بتایا، جنہیں آج کے دور میں لوگ بھول چکے تھے۔ انہوں نے ایسے نسخے بتائے جو بہت سی بیماریوں کا علاج کر سکتے تھے۔

سب لوگ سانس روکے ان کی بات سن رہے تھے۔ بھولکڑ بابا آج ایک دم سے تبدیل ہو گئے تھے۔ انہیں کچھ بھی نہیں بھول رہا تھا۔ وہ تفصیلات کے ساتھ ہر بات بیان کر رہے تھے۔

آخر میں، انہوں نے کہا، "بیٹوں اور بیٹیوں، یہ کتاب ہماری وراثت ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے۔ میں نے اسے اس لیے چھپایا تھا کہ کہیں یہ کھو نہ جائے۔ مگر میں یہ بھول گیا تھا کہ میں نے اسے کہاں رکھا ہے۔ آج، ہماری نسل نو کی ایک بہادر لڑکی، زینب، کی بدولت یہ کتاب پھر سے ہمیں مل گئی ہے۔"

سب نے تالیاں بجائیں۔ زینب کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔

بھولکڑ بابا نے کتاب چوہدری صاحب کے حوالے کی۔ "اس کتاب کی حفاظت کرو۔ اس میں درج علم کو آگے بڑھاؤ۔ میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری یادداشت کا ساتھ نہیں دیتی۔ مگر یہ کتاب ہمیشہ تمہارا ساتھ دے گی۔"

اس دن کے بعد، گاؤں والوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ کتاب میں درج علم کو محفوظ کریں گے۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی لائبریری بنائی جہاں کتاب کی نقول رکھی گئیں۔ بچوں کو پرانی روایات اور ہنر سکھائے جانے لگے۔ گاؤں کی ترقی ہونے لگی۔

بھولکڑ بابا پہلے کی طرح بھولکڑ ہی رہے۔ وہ اب بھی اپنی جھونپڑی کا رستہ بھول جاتے، بات کرتے کرتے درمیان میں ہی سب کچھ بھول جاتے۔ مگر اب گاؤں والے انہیں اور بھی زیادہ پیار کرنے لگے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھولنے کے باوجود، انہوں نے ہی گاؤں کو اس کا سب سے بڑا خزانہ واپس دلایا ہے۔

اور کبھی کبھار، جب چاند پورا ہوتا اور چاندنی رات میں سب کچھ نہایت واضح ہوتا، بھولکڑ بابا برگد کے درخت کے پاس جاکر بیٹھ جاتے۔ وہاں بیٹھ کر انہیں سب کچھ یاد آ جاتا۔ پرانی یادیں، پرانی کہانیاں، اور وہ دن جب وہ خود ایک چھوٹے لڑکے تھے۔ اور ان لمحات میں، وہ بالکل بھی بھولکڑ نہیں ہوتے تھے۔ وہ ایک ایسے دانشور کی طرح ہوتے تھے جسے زندگی کے ہر راز کا علم ہو۔

زینب اکثر ان کے پاس آتی اور کہتی، "بابا، مجھے کوئی کہانی سنا دیجیے۔"

اور بھولکڑ بابا، اپنی آنکھوں میں چمک لے کر، ایک نئی پرانی کہانی سنانا شروع کر دیتے۔ اور یہ کہانی وہ کبھی نہیں بھولتے تھے۔

اسی طرح، خاموش واڑی گاؤں میں بھولکڑ بابا کی کہانی ایک legend بن گئی۔ ایک ایسے بزرگ کی کہانی جو سب کچھ بھول جاتے تھے، مگر جنہوں نے اپنے گاؤں کو وہ سب کچھ یاد دلایا جو وہ بھولنے والے تھے۔ اور یوں، بھولکڑ بابا ہمیشہ کے لیے گاؤں کے دل میں زندہ ہو گئے۔