کہانی گھر

کھانے کی دوڑ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یہ کہانی ایک ایسے گاؤں کی ہے جو پہاڑوں کی گود میں بسا ہوا تھا۔ گاؤں کا نام تھا "مٹھاس پور"۔ مٹھاس پور اپنے میٹھے پانی کے چشمے، سرسبز کھیتوں اور پرامن رہنے والے لوگوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہاں کے رہنے والے سادہ زندگی گزارتے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور خوشی کے مواقع پر مل کر جشن مناتے تھے۔ گاؤں کی سب سے بڑی خوشی اور فخر کی بات یہ تھی کہ یہاں ہر سال "میلہ مٹھاس" منائی جاتی تھی، جس میں پورے خطے سے لوگ شرکت کے لیے آتے تھے۔ اس میلے کا سب سے اہم اور دلچسپ حصہ ہوتا تھا "کھانے کی دوڑ"۔

کھانے کی دوڑ کوئی عام دوڑ نہیں تھی۔ یہ ایک ایسا انوکھا مقابلہ تھا جس میں گاؤں کے نوجوانوں کو ایک لمبی دوڑ میں حصہ لینا ہوتا، جس کے راستے میں مختلف اسٹال لگے ہوتے، اور ہر اسٹال پر ایک مخصوص کھانا تیار ہوتا۔ دوڑ میں شامل ہر کھلاڑی کو ہر اسٹال پر رک کر وہ کھانا کھانا ہوتا، تب ہی اسے اگلے اسٹال کی طرف جانے کی اجازت ملتی۔ جیت اسے ہوتی جو سب سے پہلے آخری اسٹال تک پہنچ کر فاتحانہ ڈھول بجا کر اپنی جیت کا اعلان کرتا۔ یہ صرف کھانے کا مقابلہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ ہمت، برداشت، اور تیزی کا بھی امتحان ہوتا تھا۔

مٹھاس پور کے دو نوجوانوں میں اس دوڑ کے حوالے سے ایک دوستانہ مقابلہ چل رہا تھا۔ ایک کا نام تھا شکور اور دوسرے کا نام تھا حمزہ۔ شکور گاؤں کے مشہور کھانے "حلوہ پوری" بنانے والے حلوائی ملا بخش کا بیٹا تھا۔ وہ بچپن سے ہی میٹھے کھانوں میں گھرا ہوا تھا۔ اس کا باپ چاہتا تھا کہ شکور بھی اس کا پیشہ سنبھالے اور حلوہ پوری کی روایت کو آگے بڑھائے۔ شکور خود بھی ایک ماہر باورچی بننے کے خواب دیکھتا تھا۔

دوسری طرف حمزہ، گاؤں کے کسان فضل دین کا بیٹا تھا۔ فضل دین گاؤں کے سب سے بہترین کھیتوں میں تازہ سبزیاں اگاتا تھا۔ حمزہ بچپن سے ہی کھیتوں میں کام کرتا، تازہ ہوا میں سانس لیتا، اور فطری طور پر مضبوط اور طاقتور ہو گیا تھا۔ وہ گاؤں کا سب سے تیز دوڑنے والا لڑکا تھا اور ہر کھیل میں سب سے آگے رہتا تھا۔

شکور اور حمزہ دونوں گہرے دوست تھے۔ اکٹھے پڑھے، اکٹھے کھیلے، اور اکٹھے بڑے ہوئے تھے۔ لیکن جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے گئے، دونوں کے درمیان کھانے کی دوڑ کو لے کر ایک صحتمندانہ مقابلہ شروع ہو گیا۔ حمزہ کو یقین تھا کہ اس کی تیز دوڑ اسے ہر سال جتوا دے گی، جبکہ شکور سمجھتا تھا کہ اس کے کھانے کے ہنر اور پیٹ کی گنجائش ہی اسے فتح دلوا سکتی ہے۔ دونوں ہی اس مقابلے کو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی میلہ مٹھاس کا اعلان ہوا۔ گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر طرف رنگینیاں، جھنڈے، اور روشنیاں نظر آنے لگیں۔ بچے، بڑے، جوان، بوڑھے سبھی میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا۔ لیکن سب سے زیادہ پرجوش تھے شکور اور حمزہ۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اس بار کی کھانے کی دوڑ میں سے ایک ہی فاتح نکلے گا۔

شکور نے اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ وہ روزانہ صبح سویرے اٹھتا، دوڑ لگاتا، اور پھر اپنے باپ کے ہاں حلوہ پوری بنانے کی مشق کرتا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف کھانا کھا لینا ہی کافی نہیں، بلکہ اسے جلدی جلدی اور بغیر رکے ہضم کرنا بھی ضروری ہے۔ وہ مختلف قسم کے کھانوں کے ساتھ اپنے پیٹ کو عادی بنانے کی کوشش کرتا۔

حمزہ بھی پیچھے نہیں تھا۔ اس نے اپنی دوڑ کی رفتار بڑھانے کے لیے خصوصی تربیت شروع کی۔ وہ پہاڑیوں پر چڑھتا، لمبی دوڑیں لگاتا، اور اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ لچکدار بنانے کی کوشش کرتا۔ وہ جانتا تھا کہ کھانا کھانے میں وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے، اس لیے اس نے تیزی سے کھانے کی بھی مشق کی۔

میلے کا دن قریب آتا گیا۔ گاؤں کے بزرگوں نے دوڑ کے راستے کا تعین کر لیا تھا۔ اس بار دوڑ کو اور بھی مشکل بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ راستے میں پانچ اسٹال ہوں گے۔ پہلے اسٹال پر میٹھا، دوسرے پر نمکین، تیسرے پر ترش، چوتھے پر تیکھا، اور پانچویں اور آخری اسٹال پر ایک خاص قسم کا کھانا ہوگا جس کا اعلان آخر میں کیا جائے گا۔

آخرکار وہ دن آ ہی گیا۔ میلہ مٹھاس کا آغاز ہوا۔ گاؤں کے بیچوں بیچ لگے بڑے میدان میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ رنگ برنگے کپڑے، خوشی کے چہرے، اور ہر طرف بچوں کی چیخیں فضاؤں میں گونج رہی تھीं۔ کھانے کی دوڑ کا وقت ہوا۔ تمام شرکاء اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ شکور اور حمزہ دونوں شروع کی لکیر پر تیار تھے۔ دونوں کی آنکھوں میں جیت کی ہوک صاف نظر آ رہی تھی۔

گاؤں کے سربراہ نے بندوق فضا میں داغی۔ "دوڑ شروع!" کے اعلان کے ساتھ ہی تمام کھلاڑی تیز دوڑے۔ حمزہ پہلے ہی قدم سے سب سے آگے نکل گیا۔ اس کی رفتار دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔ شکور تھوڑا پیچھے تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ دوڑ کا پہلا حصہ ہے، اصل مقابلہ تو ابھی باقی ہے۔

پہلا اسٹال قریب آ گیا۔ یہاں پر میٹھے کھانے تیار تھے۔ ہر کھلاڑی کے سامنے ایک بڑی پلیٹ میں جلیبیاں اور ایمنے رکھے گئے۔ حمزہ نے سب سے پہلے پہنچ کر جلیبیوں کا ایک ایک کر کے تناول شروع کیا۔ وہ جانتا تھا کہ میٹھا کھانا پیٹ بھرے گا، اس لیے اس نے جلدی جلدی کھانے کی کوشش کی۔ شکور بھی پہنچ گیا۔ اس نے آہستہ اور چباکر کھانا شروع کیا، تاکہ اسے ہضم کرنا آسان ہو۔

حمزہ پہلا اسٹال ختم کر کے دوسرے کی طرف بھاگا۔ شکور ابھی تک کھانا کھا رہا تھا۔ لوگ حمزہ کے لیے تالیاں بجا رہے تھے۔ دوسرے اسٹال پر نمکین کھانے تیار تھے۔ یہاں پر ہر کھلاڑی کے لیے پانچ سادہ پراٹھے اور ایک کٹورا دال رکھا گیا تھا۔ حمزہ نے پراٹھے اور دال جلدی جلدی کھائے اور تیسرے اسٹال کی طرف دوڑ لگا دی۔

شکور دوسرے اسٹال پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ حمزہ کافی آگے نکل چکا ہے۔ اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے پراٹھے اور دال کو اچھی طرح چبایا اور پھر آگے بڑھا۔ تیسرے اسٹال پر ترش کھانے تیار تھے۔ یہاں پر ہر کھلاڑی کے سامنے ایک بڑا کٹورا چاٹ رکھا گیا تھا، جس میں آم، آلو، چنے، اور دوسری ترش چیزیں شامل تھیں۔

حمزہ نے چاٹ کا کٹورا اٹھایا اور جلدی جلدی کھانے لگا۔ ترش ذائقہ اس کے منہ میں پانی بھر آیا، لیکن اس نے ہمت کی اور سارا چاٹ کھا لیا۔ اب وہ تھوڑا سا تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا، لیکن اس نے اپنی رفتار برقرار رکھی۔ شکور تیسرے اسٹال پر پہنچا تو اس نے چاٹ کو مزے لے لے کر کھانا شروع کیا۔ وہ جانتا تھا کہ ترش کھانے سے تازگی ملتی ہے، اس لیے اس نے اسے اپنی تھکن دور کرنے کے لیے استعمال کیا۔

چوتھا اسٹال تیکھے کھانے کا تھا۔ یہاں پر ہر کھلاڑی کے سامنے دو بڑے، مصالحے دار اور مرچوں سے بھرپور پکوڑے رکھے گئے تھے۔ حمزہ نے پہلا پکوڑا منہ میں ڈالا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ مصالحہ اس کے گلے میں پھنس گیا۔ اسے کھانسی آئی اور وہ رک گیا۔ اس نے پانی مانگا، لیکن قواعد کے مطابق کھانے کے دوران پانی نہیں دیا جا سکتا تھا۔

شکور چوتھے اسٹال پر پہنچا تو اس نے حمزہ کو مصیبت میں دیکھا۔ اس نے اپنے پکوڑے اٹھائے اور آہستہ آہستہ چباکر کھانے لگا۔ وہ مصالحے دار کھانوں کا عادی تھا، اس لیے اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ حمزہ نے مشکل سے پکوڑے کھائے اور آخری اسٹال کی طرف دوڑا، لیکن اب اس کی رفتار کافی کم ہو چکی تھی۔ شکور بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

آخری اسٹال پر پہنچنے والا پہلا کھلاڑی حمزہ تھا۔ یہاں پر اسٹال خالی تھا۔ صرف ایک بڑی سی دیگچی رکھی ہوئی تھی، جس پر ڈھکنا ڈالا گیا تھا۔ حمزہ نے حیران ہو کر ڈھکنا اٹھایا۔ اندر سے ایک انتہائی بدبودار اور عجیب سی بو آئی۔ یہ "حکیم جی کی جڑی بوٹیوں والی کڑوی سوپی" تھی۔ یہ سوپی مختلف تلخ جڑی بوٹیوں سے بنائی جاتی تھی، جس کا ذائقہ نہایت کڑوا ہوتا تھا۔

حمزہ کی حالت خراب ہو گئی۔ اس نے پہلے ہی تیکھے پکوڑے کھائے تھے، اب اس کڑوی سوپی کو دیکھ کر اس کا جی متلا اٹھا۔ وہ سوپی کا کٹورا اٹھانے ہی والا تھا کہ شکور بھی آخری اسٹال پر پہنچ گیا۔ شکور نے سوپی دیکھی تو مسکرا دیا۔ اس کڑوی سوپی کا ذائقہ وہ اچھی طرح جانتا تھا، کیونکہ اس کے باپ نے اکثر اسے صحت کے لیے پلائی تھی۔

حمزہ نے کٹورے میں سے ایک چمچ سوپی منہ میں ڈالی ہی تھی کہ اس کا منہ بگڑ گیا۔ وہ قے کرنے ہی والا تھا، لیکن اس نے خود پر قابو پایا۔ شکور نے آہستہ سے سوپی کا کٹورا اٹھایا اور ایک ایک چمچ کر کے پینا شروع کیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سوپی پیٹ کے لیے فائدہ مند ہے اور اسے ہضم ہونے میں مدد دے گی۔

حمزہ مشکل سے آدھا کٹورا سوپی پی سکا۔ اس کا پیٹ بھر چکا تھا، اور وہ بدحواسی محسوس کر رہا تھا۔ شکور نے اپنی سوپی ختم کی اور آخری اسٹال کے کامیابی کے ڈھول کی طرف بڑھا۔ حمزہ نے بھی ہمت کی اور باقی سوپی پی کر ڈھول کی طرف دوڑا، لیکن اب تک شکور ڈھول بجا چکا تھا۔

میدان میں تالیاں بجنے لگیں۔ شکور نے جیت کر اپنی مہارت اور ہمت کا ثبوت دے دیا تھا۔ حمزہ تھوڑا مایوس تھا، لیکن اس نے شکور کو مبارکباد دی۔ دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ گاؤں والوں نے دونوں کی ہمت کی تعریف کی۔

اس سال کی کھانے کی دوڑ نے سب کو یہ سبق دیا کہ صرف تیز دوڑنا ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ ہمت، برداشت، اور دانشمندی سے کام لینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ شکور کی جیت نے اسے اپنے باپ کے پیشے کو آگے بڑھانے کے لیے مزید پرجوش کر دیا، اور حمزہ نے اگلے سال کے لیے اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ دونوں دوستوں کی دوستی اور مقابلہ دونوں ہی جاری رہے، اور مٹھاس پور کی کھانے کی دوڑ کی داستان ہر سال نئی کہانیاں تخلیق کرتی رہی۔

میلہ ختم ہوا، لیکن گاؤں والوں کے دلوں میں خوشی اور جوش برقرار رہا۔ شکور اور حمزہ دونوں گاؤں کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ ان کی کہانی نے سب کو یہ سکھایا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے محنت، لگن، اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ کہ دوستی ہر مقابلے سے بالاتر ہوتی ہے۔

شکور نے اپنے باپ کے ہاں حلوہ پوری بنانے کا کام سنبھال لیا، اور حمزہ اپنے باپ کے کھیتوں میں سبزیاں اگانے لگا۔ دونوں اپنے اپنے شعبوں میں ماہر ہو گئے، لیکن ان کی دوستی قائم رہی۔ ہر سال کی کھانے کی دوڑ میں وہ ضرور حصہ لیتے، اور ایک دوسرے کو للکارتے۔ کبھی شکور جیتتا، تو کبھی حمزہ، لیکن ہار جیت سے بالاتر ہو کر وہ ایک دوسرے کے خوشی اور غم کے ساتھی بنے رہے۔

مٹھاس پور کی کھانے کی دوڑ کی کہانی آج بھی گاؤں کے بزرگ اپنے بچوں کو سناتے ہیں، تاکہ وہ بھی شکور اور حمزہ کی طرح ہمت، محنت، اور دوستی کی اہمیت سیکھ سکیں۔ اور یوں، یہ کہانی نسل در نسل چلتی رہی، ہر دل میں امید اور جوش بھرتی رہی۔