وہ پرانی سی ٹی وی کی ریموٹ اس کے ہاتھ میں تھی، جس پر سے تو اب رنگ بھی اُتر چکے تھے۔ بٹن دباکر دیکھنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ٹی وی بند ہی رہتا، یا پھر اگر چل بھی جاتا تو اس پر دھندلا سا سفید پردہ ہی نظر آتا، جیسے برفانی طوفان میں پھنس گیا ہو۔ یاسر نے کئی بار اسے پھینکنے کا ارادہ کیا، مگر کچھ نہ جانے کیوں، ہر بار کوئی نہ کوئی جذبہ اسے روک لیتا۔ شاید یہ اس لیے کہ یہ ریموٹ اُس کے ابّا کی پسندیدہ چیزوں میں سے ایک تھی، یا شاید اس لیے کہ اس میں وقت کی ایک ایسی دھول بھری ہوئی تھی جسے وہ جھاڑنا نہیں چاہتا تھا۔
ابّا کے جانے کے بعد گھر میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی۔ ماں دن بھر کچھ نہ کچھ کام میں مصروف رہتیں، مگر یاسر جانتا تھا کہ یہ مصروفیتیں صرف اُس خلا کو بھرنے کی کوششیں تھیں جو ابّا نے چھوڑا تھا۔ خود اس کے اندر بھی ایک بے چینی سی تھی، جیسے کوئی چابی کہیں گم ہو گئی ہو اور وہ اُسے ڈھونڈ رہا ہو۔ ایسے میں وہ پرانی چیزیں ہی اس کا سہارا تھیں۔
ایک شام جب بارش ہو رہی تھی اور بجلی چلی گئی تھی، یاسر اپنے کمرے میں بیٹھا پرانی الماری کے کونے کھدرے ٹٹول رہا تھا۔ اسی دوران اس کے ہاتھ وہی پرانی ریموٹ لگی۔ اس نے سوچا، چلو ایک آخری بار دیکھ ہی لیتا ہوں۔ اس نے ریموٹ ہلاتے ہوئے اس کے پیچھے سے بیٹریاں نکالیں۔ وہ تو کورروز ہی تھیں، ان پر سفید سفید داغ پڑ چکے تھے۔ اس نے نئی بیٹریاں ڈالیں اور بے امیدی سے ہی سہی، ٹی وی کی طرف رخ کیا۔ ریموٹ کا پاور بٹن دبایا۔
ٹی وی نے معمول کی سی ایک آواز نکالی، جیسے کوئی بوڑھا کھانستے ہوئے جاگ اٹھے۔ مگر اس بار اس پر سفید پردہ نہیں تھا۔ اس بار اس کی سکرین پر ایک ایسی تصویر ابھری جو یاسر کے دل و دماغ پر بجلی گرا دینے کے لیے کافی تھی۔
وہ اپنے ابّا کو دیکھ رہا تھا۔ بالکل زندہ اور توانا۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، جیسے ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔ یاسر کی سانسیں رک گئیں۔ اس کی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے ریموٹ کو ایک بار پھر دبایا۔ ٹی وی بند ہو گیا۔ اس نے دوبارہ بٹن دبایا۔ ابّا پھر وہیں تھے، اب وہ اخبار سے سر اٹھا کر مسکرا رہے تھے، جیسے یاسر کو دیکھ رہے ہوں۔
یاسر کا دل دیوانہ وار دھڑک رہا تھا۔ یہ کیا ہو رہا تھا؟ کیا یہ کوئی پرانا ویڈیو تھا؟ مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا؟ ان کے پاس تو ایسا کوئی ویڈیو تھا ہی نہیں۔ اس نے ریموٹ کو غور سے دیکھا۔ یہ تو وہی پرانا، مٹا ہوا جادوئی ریموٹ تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے آواز بڑھانے والا بٹن دبایا۔
ابّا کی آواز گونجی، "یاسر بیٹا، تم نے کھانا کھالیا؟"
یہ آواس۔۔۔ وہی گہری، شفاف اور پیاری آواز جو اسے اپنے بچپن سے سنائی دیتی تھی۔ یاسر کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لہر بہہ نکلی۔ وہ ہچکیاں لے کر بولا، "جی ابّا۔۔ . آپ۔۔ . آپ وہاں کیسے؟"
ابّا نے مسکراتے ہوئے اخبار نیچے رکھا، "تمہارے پاس بیٹھا ہوں نا بیٹا۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے آج؟"
یاسر سمجھ گیا۔ یہ کوئی ویڈیو نہیں تھی۔ یہ کچھ اور تھا۔ کچھ غیر فطری، کچھ جادوئی۔ یہ ریموٹ ماضی کے دروازے کھول رہی تھی۔ اس نے دیکھا، ٹی وی کے نیچے والے ڈبے پر ایک چھوٹا سا لیبل چمک رہا تھا جس پر ایک تاریخ لکھی تھی: "۱۲ مئی ۲۰۱۰"۔ یہ تو دس سال پہلے کی تاریخ تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ ریموٹ ٹی وی کو وقت میں پیچھے لے جا رہی تھی۔
اس نے ریموٹ اٹھائی اور چینل بدلنے والا بٹن دبایا۔ سکرین پر ایک ہلکا سا جھماکا ہوا اور منظر بدل گیا۔ اب وہ اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا، دس سال چھوٹا۔ وہ اپنے کمرے میں کھیل رہا تھا۔ اس کی ماں جوان نظر آ رہی تھیں، وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھیں اور گا رہی تھیں۔ یاسر کے لیے یہ منظر ایک خواب سے کم نہ تھا۔ اس نے اگلا چینل بٹن دبایا۔ منظر پھر بدلا۔ اب وہ اپنی بہن کی شادی کا منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ خود، اس کے ابّا، اس کی ماں۔۔ . سب خوشی سے جھوم رہے تھے۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ یہ وہ لمحے تھے جو وقت کی دھند میں کہیں کھو گئے تھے، مگر اب یہ اس کی انگلیوں کے اشارے پر زندہ ہو رہے تھے۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ یاسر نے جلدی سے ریموٹ کا پاور بٹن دبایا۔ ٹی وی بند ہو گیا۔ اس کی ماں کمرے میں داخل ہوئیں، "یاسر بیٹا، کھانا تیار ہے۔ تم نے شام سے کچھ نہیں کھایا۔"
یاسر نے جلدی سے آنسو پونچھے اور مسکرانے کی کوشش کی، "جی اماں، اب آتا ہوں۔"
ماں نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا، "سب ٹھیک تو ہے نا؟ تمہاری آنکھیں سرخ ہیں۔"
"نہیں اماں، بس۔۔ . تھوڑا سر درد ہو رہا تھا، اب ٹھیک ہے۔"
ماں باہر چلی گئیں، مگر یاسر کا دل اب بھی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے ریموٹ کو اپنے تکیے کے نیچے چھپا دیا۔ یہ راز اس وقت تک صرف اسی کا تھا۔
اگلے کئی دنوں تک یاسر اسی جادوئی ریموٹ کے سحر میں گرفتار رہا۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر ماضی کے ایک کے بعد ایک چینل بدلتا۔ وہ اپنا بچپن دیکھتا، اپنے ابّا کو جوانی میں دیکھتا، اپنے ننھے بھائی کو، جو بچپن میں ایک حادثے میں چل بسا تھا، اسے کھیلتے ہوئے دیکھتا۔ ہر منظر اس کے دل کو ایک عجیب سی تسلی دیتا، مگر ساتھ ہی ایک گہرا دکھ بھی۔ یہ سب کچھ تو تھا، مگر اب نہیں تھا۔ وہ صرف ایک تماشائی تھا، ماضی کے اس پردے کے پیچھے سے دیکھتا ہوا ایک آنکھ۔
ایک دن اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اگر یہ ریموٹ ماضی کے چینلز بدل سکتی ہے، تو کیا یہ مستقبل کے چینلز بھی دکھا سکتی ہے؟ اس نے ریموٹ اٹھائی اور چینل بڑھانے والے بٹن کو مسلسل دبایا۔ چینل نمبر بڑھتے گئے۔ ۱۰۰، ۲۰۰، ۵۰۰۔۔ . آخرکار جب وہ ۹۹۹ پر پہنچا تو سکرین پر ایک نیلا پردہ سا نظر آیا، جیسے کوئی خلائی چینل ہو۔ اس نے وولیم بڑھایا۔ ایک ہلکی سی ہوا کی آواز کے سوا کچھ نہیں تھا۔ پھر اچانک سکرین پر ایک روشنی سی پھٹی اور ایک منظر ابھرا۔
یہ اس کا اپنا گھر تھا، مگر بالکل ویران۔ فرنیچر پر گرد جمی ہوئی تھی۔ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ اس نے اپنی ماں کو ایک کونے میں بیٹھے دیکھا۔ وہ بہت بوڑھی ہو چکی تھیں اور اکیلی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک گہرا افسوس تھا۔ یاسر کا دل دھک سے رہ گیا۔ یہ کون سا وقت تھا؟ اس نے ریموٹ کو اور دبایا۔ چینل نمبر ۱۰۰۰ پر ایک اور منظر۔ وہ خود ایک ہسپتال کے بستر پر پڑا تھا، اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے۔ اس کے اردگرد ڈاکٹر مصروف تھے۔ اس نے اپنی ماں کو روتی ہوئی دیکھا۔
یاسر نے فوراً ریموٹ بند کر دی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ یہ مستقبل تھا؟ کیا یہ ہونے والا تھا؟ اس کے ہاتھ سے ریموٹ چھوٹ کر فرش پر گر گئی۔ وہ سہم سا گیا۔ اس جادوئی ریموٹ نے اسے ماضی کی خوبصورت یادیں تو دی تھیں، مگر مستقبل کی یہ ڈراؤنی تصویریں اس کے لیے ایک عذاب بن گئی تھیں۔
اب وہ ریموٹ کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرنے لگا۔ ماضی کے خوبصورت لمحات اسے بے چین کرنے لگے، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ان کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ وہ اپنی ماں کو دیکھتا تو مستقبل کی بوڑھی اور اکیلی ماں کی تصویر اس کے سامنے آ جاتی۔ وہ اپنے آپ کو دیکھتا تو ہسپتال کے بستر کی تصویر اسے ڈرا دیتی۔
ایک رات جب چاندنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، یاسر نے فیصلہ کیا۔ اس نے ریموٹ اٹھائی اور اسے کچرے کے ڈبے میں پھینکنے کے لیے باہر نکلا۔ مگر جب وہ ڈبے کے قریب پہنچا تو اس کے پاؤں رک گئے۔ اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اگر یہ ریموٹ وقت کے چینل بدل سکتی ہے، تو کیا یہ صرف دیکھنے کے لیے ہے؟ یا پھر۔۔ . کیا اس کے ذریعے ماضی میں کوئی تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے؟
وہ دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں واپس آیا۔ اس نے ٹی وی آن کیا اور اس چینل پر واپس گیا جہاں اس کا چھوٹا بھائی، عامر، زندہ تھا۔ عامر گھر کے صحن میں اپنی سائیکل چلا رہا تھا۔ یاسر کو معلوم تھا کہ اگلے ہی ہفتے، اسی سائیکل کے ساتھ ایک حادثہ ہوگا اور عامر اس دنیا سے چلا جائے گا۔ اس کے ابّا کی بیماری کا آغاز بھی اسی صدمے سے ہوا تھا۔
یاسر نے ریموٹ کو تھامے ہوئے بٹنوں پر انگلیاں پھیرنی شروع کیں۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح اس ماضی میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس نے ہر بٹن کو آزمانا شروع کیا۔ آخرکار، جب اس نے مینیو (Menu) کا بٹن دبایا تو ٹی وی کی سکرین پر ایک عجیب سی روشنی سی پھٹی۔ ایک نیلا، چمکدار دروازہ سا بن گیا۔ یاسر حیرت سے اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ کیا تھا؟
اس نے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ اس روشنی میں بڑھایا۔ اسے ایک کھچاؤ محسوس ہوا، جیسے کوئی طاقتور مقناطیس اسے اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ اس نے مزید زور لگایا۔ اچانک، وہ اپنے آپ کو ایک تیز روشنی میں گھرا ہوا محسوس کرنے لگا۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کے جسم کے ہر خلیے کو توڑ کر دوبارہ جوڑا جا رہا ہو۔
پلک جھپکتے ہی، روشنی غائب ہو گئی۔ یاسر خود کو اپنے ہی گھر کے صحن میں کھڑا پایا۔ مگر کچھ مختلف تھا۔ درخت چھوٹے تھے۔ ہوا میں بچپن کی معصوم خوشبو تھی۔ اور سامنے۔۔ . اس کا چھوٹا بھائی عامر، اپنی سرخ سائیکل چلا رہا تھا۔
"عامر!" یاسر کی آواز خود بخود نکل گئی۔
عامر نے سائیکل روکی اور اس کی طرف دیکھا۔ "بھیا! آپ اسکول سے آ گئے؟"
یاسر نے اپنے آپ کو دیکھا۔ وہ اپنے اسکول یونیفارم میں تھا۔ یہ وہی وقت تھا، وہی دن۔ جس دن عامر کا حادثہ ہوا تھا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑکنا شروع ہو گیا۔ اس کے پاس وقت تھا۔ وہ اس حادثے کو روک سکتا تھا۔
"ہاں۔۔ . ہاں آ گیا ہوں," یاسر نے کہا، اس کی آواز میں کانپن تھی۔ "تم۔۔ . تم سائیکل احتیاط سے چلایا کرو۔"
عامر نے قہقہہ لگایا، "بھیا، آپ تو اماں جیسے بات کر رہے ہیں!" اور وہ سائیکل چلا کر آگے بڑھ گیا۔
یاسر گھر کے اندر داخل ہوا۔ اس کی ماں جوان تھیں، کچن میں مصروف۔ "یاسر بیٹا، جلدی سے نہا کر آؤ، تمہارے ابّا بھی آ رہے ہیں۔"
یاسر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ یہ سب کچھ۔۔ . یہ سب کچھ حقیقت تھی۔ وہ واقعی ماضی میں آ گیا تھا۔ اس نے اپنے کمرے میں جا کر ریموٹ کو دیکھا۔ وہ اس کی جیب میں تھی۔ اس نے اسے باہر نکالا۔ وہی پرانی ریموٹ، مگر اب اس پر ایک ہلکی سی نیلی روشنی ٹمٹما رہی تھی۔
شام ہوئی۔ ابّا آئے۔ سب نے مل کر کھانا کھایا۔ یاسر ہر لمحے اپنے بھائی پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ وہ جانتا تھا کہ حادثہ اگلے دن دوپہر میں ہونا تھا، جب عامر اپنے دوستوں کے ساتھ سائیکل دوڑانے جاتا۔
اگلے دن، یاسر نے اسکول جانے کا بہانہ کیا اور گھر سے نکل گیا، مگر وہ عامر کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ وہ جانتا تھا کہ حادثہ اس گلی کے موڑ پر ہوا تھا جہاں سے ایک ٹرک اچانک نکل آتا تھا۔ وہ وہیں ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔
تھوڑی دیر بعد، عامر اور اس کے دوست شور مچاتے ہوئے سائیکلیں چلا رہے تھے۔ عامر آگے تھا۔ وہ تیزی سے اس موڑ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یاسر نے دیکھا، دور سے ایک ٹرک آ رہا تھا۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ یہ وہی لمحہ تھا۔
عامر نے موڑ لیا۔ ٹرک تیزی سے قریب آ رہا تھا۔ ڈرائیور نے ہارن بجایا۔ عامر گھبرا گیا۔ اس کی سائیکل ڈگمگائی۔ یاسر نے اپنے آپ کو بے قابو پایا۔ وہ درخت کے پیچھے سے نکل کر دوڑا۔ اس نے عامر کو زور سے دھکا دیا۔ عامر سائیکل سمیت گر گیا۔ ٹرک غراتا ہوا ان کے بالکل قریب سے گزر گیا۔
عامر کے ہاتھ پیر زخمی ہو گئے تھے، مگر وہ محفوظ تھا۔ وہ رو رہا تھا۔ یاسر نے اسے اٹھایا، "ٹھیک ہے عامر، ڈرو مت۔ بھیا یہاں ہے۔"
گھر پہنچنے پر سب نے یاسر کی بہادری کی تعریف کی۔ ابّا نے اسے گلے لگا لیا۔ ماں نے اس کا ماتھا چوما۔ یاسر کے اندر ایک عجیب سی اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے تاریخ بدل دی تھی۔ اس نے اپنے بھائی کی جان بچا لی تھی۔
رات کو، جب سب سو گئے، یاسر نے ریموٹ نکالی۔ اسے اب واپس جانا تھا۔ اس نے مینیو بٹن دبایا۔ نیلا دروازہ پھر نمودار ہوا۔ وہ اس میں داخل ہوا۔ ایک بار پھر وہی تیز روشنی، وہی کھچاؤ۔
جب اس نے آنکھیں کھولیں، وہ اپنے کمرے میں، اپنے موجودہ وقت میں واپس آ چکا تھا۔ ٹی وی بند تھا۔ ریموٹ اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس کا دل خوشی سے بھر آیا تھا۔ اس نے سوچا، چلو اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ عامر زندہ ہوگا۔ ابّا بیمار نہیں ہوں گے۔ ماں اکیلی نہیں ہوں گی۔
اس نے بے چینی سے گھر کے اندر دیکھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ وہ باہر آیا۔ ماں کچن میں تھیں۔ وہ پھر بھی اکیلی ہی تھیں۔ ان کے چہرے پر وہی غم کے آثار تھے۔ یاسر کا دل بیٹھ گیا۔
"اماں۔۔ . عامر کہاں ہے؟" اس نے پوچھا۔
ماں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، "عامر؟ بیٹا، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ عامر تو دس سال پہلے ہی ہمارے ساتھ نہیں رہا۔"
یاسر کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ "مگر۔۔ . مگر میں نے۔۔ ."
ماں نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، "بیٹا، شاید تمہیں بخار ہے۔ تمہارا بھائی تو اس حادثے میں چلا گیا تھا نا۔ تمہیں یاد نہیں؟"
یاسر بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس نے تو عامر کو بچا لیا تھا۔ اس نے تاریخ بدل دی تھی۔ پھر یہاں سب کچھ ویسا ہی کیوں تھا؟
وہ دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں آیا۔ اس نے ریموٹ اٹھائی اور ٹی وی آن کیا۔ اس نے عامر والا چینل ڈھونڈا۔ وہ منظر وہی تھا۔ عامر سائیکل چلا رہا تھا۔ مگر اب۔۔ . اب کچھ مختلف تھا۔ یاسر نے غور سے دیکھا۔ وہ خود درخت کے پیچھے سے نکل کر دوڑا تھا اور عامر کو بچا لیا تھا۔ مگر پھر۔۔ . پھر کیا ہوا؟
اس نے آگے کا منظر دیکھا۔ ایک ہفتے بعد، عامر اپنے دوستوں کے ساتھ تالاب میں نہانے گیا۔ وہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔ وہ ڈوب گیا۔ یاسر کی سانسیں رک گئیں۔ اس نے ریموٹ کو اور آگے بڑھایا۔ عامر کی موت کی خبر سے اس کے ابّا کو دل کا دورہ پڑا۔ وہ بستر پر پڑ گئے۔ چند ماہ بعد، وہ بھی چل بسے۔
یاسر چیخا۔ نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا! اس نے تو ایک المیے کو روکا تھا، مگر تقدیر نے دوسرا المیہ گھڑ لیا تھا۔ نتیجہ ویسا ہی تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے ریموٹ کو مستقبل کے چینلز پر ڈالا۔ وہی منظر۔ بوڑھی اور اکیلی ماں۔ ہسپتال کا بستر۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ صرف وجوہات بدل گئی تھیں۔
اسے احساس ہوا کہ وقت کی لڑی میں کوئی ایک واقعہ بدلنا ممکن نہیں تھا۔ ہر واقعہ دوسرے واقعات سے جڑا ہوا تھا۔ ایک کو بدلنا، پورے جال کو ہلا دینا تھا۔ مگر انجام۔۔ . انجام شاید پہلے سے ہی لکھا جا چکا تھا۔
یاسر نے ریموٹ کو فرش پر پٹخ دیا۔ وہ ٹوٹ گئی۔ اس کے اندر سے چمکدار تار اور پرزے باہر نکل آئے۔ اس نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، مگر وہ بے کار ہو چکی تھی۔ وہ رونے لگا۔ اس کے ہاتھ سے وہ طاقت چھن گئی تھی جسے وہ سمجھ نہیں پایا تھا۔
کئی دنوں تک یاسر افسردہ رہا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ ماضی کو بدلنا ممکن نہیں تھا۔ مستقبل کو کنٹرول کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ جادوئی ریموٹ اسے صرف ایک سبق دینے آئی تھی: وقت کو قبول کرنا۔
پھر ایک دن، اس نے ٹوٹی ہوئی ریموٹ کے پرزے اٹھائے۔ اس نے انہیں ایک چھوٹے سے ڈبے میں رکھا۔ وہ اب اسے پھینکنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ اس کے لیے ایک نشانی تھی۔ نشانی اس بات کی کہ کچھ چیزیں ہمیں بدلنے کے لیے نہیں، بلکہ سیکھنے کے لیے ملتی ہیں۔
اس نے اپنی ماں کے پاس جا کر انہیں گلے لگا لیا۔ "اماں، میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔"
ماں نے حیرت سے اسے دیکھا، پھر مسکرا دیں، "مجھے معلوم ہے بیٹا۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے آج؟"
"کچھ نہیں اماں۔ بس۔۔ . ابّا اور عامر ہمارے ساتھ نہیں ہیں، مگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔"
ماں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انہوں نے یاسر کے سر پر ہاتھ پھیرا، "ہاں بیٹا۔ ہمیشہ۔"
یاسر نے محسوس کیا کہ اس کا دل ہلکا ہو گیا ہے۔ اس نے ٹوٹی ہوئی ریموٹ کو اپنے کمرے کی الماری میں رکھ دیا۔ وہ اب اسے استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی تھی۔
کچھ ہفتوں بعد، جب وہ اپنے کمرے کی صفائی کر رہا تھا، اس کی نظر اسی ڈبے پر پڑی جس میں ریموٹ کے پرزے تھے۔ اس نے ڈبہ کھولا۔ پرزے اب بھی وہی تھے۔ مگر ان میں سے ایک چھوٹا سا پرزا، جس پر ایک چمکدار بٹن لگا ہوا تھا، ہلکی سی نیلی روشنی دے رہا تھا۔ یاسر نے حیرت سے اسے اٹھایا۔ کیا یہ ریموٹ اب بھی کام کر رہی تھی؟
اس نے سوچا، شاید یہ اسے ایک اور موقع دے رہی تھی۔ مگر اب وہ ماضی کو بدلنا نہیں چاہتا تھا۔ نہ ہی مستقبل کو جاننا چاہتا تھا۔ وہ صرف حال میں جینا چاہتا تھا۔
اس نے وہ چمکدار پرزا اٹھایا اور اسے اپنی جیب میں رکھ لیا۔ یہ اس کے لیے ایک یاد دہانی تھی۔ یاد دہانی اس بات کی کہ ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر سانس انمول۔ اور یہ کہ زندگی میں سب سے بڑا جادو وقت نہیں، بلکہ وقت کے ساتھ چلنا اور ہر پل کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہے۔
وہ باہر آیا۔ ہوا میں خوشبو تھی۔ پرندے چہچہا رہے تھے۔ اس کی ماں نے اسے آواز دی، "یاسر بیٹا، چائے تیار ہے۔"
یاسر نے مسکرا کر جواب دیا، "آ رہا ہوں اماں۔"
اور وہ جان گیا کہ حقیقی جادو اس ریموٹ میں نہیں، بلکہ اس لمحے میں تھا، جو اسے اپنے پیاروں کے ساتھ گزارنا تھا۔ یہی وہ اصل چینل تھا، جسے بدلنے کی ضرورت نہیں تھی۔