کہانی گھر

گھر والوں کی سوچ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وہ پرانی سی موٹر سائیکل، جس کی آواز گلی کے نکڑ سے ہی پہچانی جاتی تھی، آج بھی ویسے ہی دھاڑتی ہوئی احمد کے گھر کے سامنے آ کر رکی۔ احمد نے انجن بند کیا، اپنا ہیلمٹ اتارا اور ایک گہری سانس لی۔ گھر کے اندر جانے سے پہلے اسے ہمیشہ ایک لمحے کی ضرورت ہوتی تھی، اپنے آپ کو سنبھالنے کے لیے۔ آج بھی وہی کیفیت تھی۔ باہر کا دنیا دار، مصروف اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس دفتر جہاں وہ ایک ماہر سافٹ ویئر انجینئر کی حیثیت سے کام کرتا تھا، اور اندر کی دنیا۔۔۔ وقت کے ساتھ چلنے سے کتراتی ہوئی، اپنے روایتی دائروں میں قید۔ گھر والوں کی سوچ۔

احمد کے لیے یہ محض دو لفظ نہیں تھے۔ یہ ایک ایسی دیوار تھی جو اس کے اور اس کے خوابوں کے درمیان کھڑی تھی۔ ایک ایسا طوق تھا جو اس کی ہر پیشقدمی پر اسے کھینچ کر واپس اپنی جگہ پر لے آتا تھا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ ہال میں اس کے والد، عبدالمجید، اپنی مخصوص کرسی پر ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ خبریں چل رہی تھیں اور وہ ہر خبر پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے، جیسے دنیا کی باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں ہو۔

"ابا، السلام علیکم،" احمد نے آواز دی۔

عبدالمجید نے ٹی وی کی آواز کم کیے بغیر، صرف آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ "آ گئے؟ تمہاری امی کہہ رہی تھیں کہ تمہارا فون بند ہے۔ کہاں تھے اتنی دیر سے؟ دفتر سے نکال کر باہر ہی گھومتے رہے؟"

احمد نے اپنا فون نکالا۔ "بیٹری ڈیڈ ہو گئی تھی ابا۔ آج میٹنگز بہت تھیں۔" یہ جھوٹ نہیں تھا، لیکن سچ بھی پورا نہیں تھا۔ دراصل، وہ دفتر سے نکل کر اپنے دو دوستوں کے ساتھ کافی شاپ پر بیٹھا تھا جہاں وہ ایک نئے اسٹارٹ اپ آئیڈیا پر بات کر رہے تھے۔ یہ بات وہ گھر میں بتا ہی نہیں سکتا تھا۔ "اسٹارٹ اپ" سن کر ہی اس کے والد کا چہرہ سرخ ہو جاتا، "نوکری چھوڑ کر بیٹھے گا؟ تمہیں پتہ ہے ہم نے تمہیں پڑھا لکھا کر کتنی محنت کی ہے؟ ایک اچھی سی نوکری کرو، شادی کرو، بس۔ یہ نئی نئی باتیں مت کرو۔"

"نوکری ہی تو کر رہا ہوں، ابا،" احمد نے اپنا بیگ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا، مگر یہ جملہ اس نے اپنے دل ہی میں کہا تھا۔ باہر سے وہ خاموش ہو کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

رات کے کھانے پر پورا خاندان اکٹھا ہوا۔ احمد، اس کے والدین، اس کی چھوٹی بہن زینب، اور اس کا چھوٹا بھائی علی۔ زینب بارہویں جماعت میں پڑھتی تھی اور علی نویں میں۔ کھانے کی میز پر ہمیشہ کی طرح گفتگو کا آغاز معمول کے سوالات سے ہوا۔

احمد کی امی، عائشہ خاتون، نے اس کے پلیٹ میں مزید روٹی رکھتے ہوئے پوچھا، "احمد بیٹا، آج دفتر میں کیسا رہا؟ تمہارے باس نے تمہاری پروموشن کے بارے میں کچھ کہا؟"

احمد نے سر ہلایا۔ "نہیں اماں، ابھی تو کچھ کہا نہیں۔ پر مہینے بھر میں پرفارمنس ریویو ہے، اس پر فیصلہ ہو گا۔"

عبدالمجید نے اپنی ڈیش کی طرف دیکھے بغیر کہا، "دیکھنا، پچاس ہزار کا کم از کم انکریمنٹ ہونا چاہیے۔ تمہارے ہم عمر فضل الرحمن کے بیٹے کی تو پچھلے مہینے ہی پروموشن ہو گئی تھی۔ تمہیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔ تم ہمیشہ سے ہی اتنے شرمیلے ہو۔ دفتر میں اپنا حق مانگنا بھی آتا ہو گا ناں؟"

احمد نے اپنے منہ میں نوالہ ڈالا۔ فضل الرحمن کا بیٹا، عامر، دراصل اس کا ہم جماعت تھا اور وہ جانتا تھا کہ عامر کی پروموشن اس لیے ہوئی تھی کیونکہ اس کے والد اس کے ڈائریکٹر کے قریبی دوست تھے۔ مگر یہ بات وہ اپنے والد کے سامنے پیش نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے نزدیک ہر کامیابی محنت سے ملتی تھی اور ہر ناکامی محنت نہ کرنے کی وجہ سے۔ ان کی سوچ کا دائرہ اس سے آگے نہیں جاتا تھا۔

زینب نے اپنی امی کی طرف دیکھا۔ "امی، ہمارے کالج میں ایک نیشنل لیول کا ڈیبیٹ مقابلہ ہو رہا ہے۔ میں نے اپنا نام درج کرا دیا ہے۔"

عائشہ خاتون کے چہرے پر فخر کی ایک لہر دوڑ گئی، مگر عبدالمجید کی آواز نے فضا کو بھاری بنا دیا۔ "ڈیبیٹ؟ کس موضوع پر؟ اور کون کون سے کالجوں کے بچے آ رہے ہیں؟ لڑکوں کا بھی کوئی گروپ ہے کیا؟"

زینب نے جواب دیا، "جی ابا، موضوع ہے 'ٹیکنالوجی اور جدید دور میں خواتین کے حقوق'۔ اور ہاں، تمام بڑے کالجوں کے طلباء و طالبات آ رہے ہیں۔"

عبدالمجید کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ "نہیں، تمہارا نام واپس لے لو۔ یہ موضوع تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔ اور ایسے مقابلوں میں لڑکے لڑکیاں مل کر بیٹھتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تمہارا اپنا کالج ہے، وہیں پڑھو۔ باہر جا کر ایسی چیزیں مت کرو۔"

زینب کا چہرہ اتر گیا۔ "لیکن ابا، یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ میں نے تیاری بھی شروع کر دی ہے۔ میڈم نے بھی مجھے منتخب کیا ہے۔"

"میں نے منع کیا ہے،" عبدالمجید کا لہجہ حتمی تھا۔ "تمہیں پڑھنا ہے تو گھر بیٹھ کر پڑھو۔ ڈاکٹر یا انجینئر بنو، یہ سب ڈرامے مت کرو۔ تمہاری شادی کے لیے اچھے رشتے آئیں گے۔"

زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ چپ چاپ کھانا کھانے لگی۔ احمد نے اپنی بہن کی طرف دیکھا۔ اسے اس کی تکلیف کا اندازہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ زینب کتنی ذہین اور حوصلہ مند لڑکی تھی، مگر اس کے خوابوں کو گھر والوں کی سوچ نے ہمیشہ پنپنے سے پہلے ہی کچل دیا تھا۔

کھانے کے بعد احمد اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ اس کا فون چارج پر لگا ہوا تھا۔ اس نے سوئچ آن کیا تو اس کے دوست، بلال کے کئی میسج آئے ہوئے تھے۔ "بھائی، کل ہماری وینچر کیپٹلسٹ سے ملاقات ہے۔ پریزینٹیشن مکمل ہے نا؟ یہ موقع ہاتھ سے مت جانے دینا۔"

احمد کا دل تیزی سے دھڑکا۔ وینچر کیپٹلسٹ۔ یہ وہ لفظ تھا جو اس کے گھر والوں کے لیے اجنبی تھا۔ وہ ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے تھے جس میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے تعلیمی مواد کو غریب طلباء کے لیے آسان اور سستا بنایا جا سکتا تھا۔ یہ اس کا خواب تھا، اس کا جنون۔ مگر گھر میں اس کا ذکر تک نہیں کر سکتا تھا۔

اس نے بلال کو جواب دیا۔ "ہاں، سب ٹھیک ہے۔ کل ملاقات پکے ہے۔"

لیکن اس کے ذہن میں ایک جنگ چل رہی تھی۔ اگر وہ اپنی نوکری چھوڑ کر اس اسٹارٹ اپ پر پوری طرح سے فوکس کرتا ہے تو گھر والے کیا کہیں گے؟ اس کی پروموشن نہ ہونے پر ہی اسے روز ٹوکا جاتا تھا۔ اگر وہ نوکری ہی چھوڑ دے تو گھر کی فضا کیا ہو گی؟ اس کے والد کا غصہ، اس کی ماں کی فکر، رشتے داروں کی طنزیہ نظریں۔۔۔ یہ سب اس کے لیے ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی۔

اگلے دن، احمد نے دفتر سے چھٹی لی اور اپنے دوستوں کے ساتھ وینچر کیپٹلسٹ سے ملاقات کی۔ ملاقات بہت اچھی گئی۔ انہیں منصوبے میں دلچسپی تھی اور وہ مزید تفصیلات چاہتے تھے۔ احمد آسمان سے باتے کر رہا تھا۔ وہ اپنے خواب کے اس قریب پہنچنے پر بہت پرجوش تھا۔

شام کو جب وہ گھر پہنچا تو اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ اس وقت ماند پڑ گئی جب اس نے دیکھا کہ گھر میں مہمان بیٹھے ہیں۔ اس کی خالہ اور ان کا بیٹا، اس کا کزن جاوید، جو ایک چھوٹے سے شہر سے کراچی آیا تھا۔

سلام دعا کے بعد احمد بیٹھ گیا۔ اس کی خالہ نے فوراً ہی بات شروع کر دی۔ "ارے احمد، تمہیں پتہ ہے جاوید نے ابھی اپنی فیملی بزنس جوائن کر لی ہے۔ گودام کا کام ہے، بہت چل رہا ہے۔ تمہیں بھی چاہیے تھا کہ اپنے ابا کے ساتھ کام کرتے، یہ نوکری کرنے سے بہتر تھا۔"

احمد نے مسکرا کر جواب دیا، "خالہ جان، میرے پاس تو کمپیوٹر کی ڈگری ہے، میں گودام کا کام کیسے کرتا؟"

"ارے، کام تو کام ہوتا ہے،" خالہ نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔ "تم پڑھے لکھے ہو، تم اسے جدید بنا سکتے ہو۔ تمہارے ابا کو بھی مدد مل جاتی۔ اب تمہاری بھی تو شادی کی عمر ہو گئی ہے۔ رشتے آ رہے ہیں، مگر لڑکی والے پوچھتے ہیں کہ لڑکا کیا کرتا ہے۔ نوکری کا نام سن کر وہ بھاگ جاتے ہیں۔ اپنا کاروبار ہونا چاہیے۔"

عبدالمجید نے سر ہلایا۔ "بالکل درست کہہ رہی ہیں۔ میں نے بھی احمد سے کہا ہے مگر یہ سنتا کون ہے۔ اپنی دنیا میں رہتا ہے۔"

احمد چپ رہا۔ وہ جانتا تھا کہ بحث بیکار ہے۔ ان کی سوچ میں کاروبار سے مراد روایتی کاروبار تھا۔ ایک دکان، گودام، ٹرانسپورٹ۔۔۔ ان کے لیے اسٹارٹ اپ، آن لائن بزنس، یہ سب غیر مستقل، غیر محفوظ اور عجیب و غریب چیزیں تھیں۔

رات گئے، جب مہمان چلے گئے، تو احمد اپنے والد کے ساتھ بیٹھا۔ اس نے ہمت کر کے کہا، "ابا، میں ایک کام کرنا چاہ رہا ہوں۔ اپنا ایک چھوٹا سا بزنس شروع کرنا چاہتا ہوں۔"

عبدالمجید کی آنکھوں میں ایک چمک آئی۔ "بالآخر تمہیں میری بات سمجھ میں آئی۔ دیکھو، تم خالہ کے کہنے پر ہی سہی، مگر بات تو مان لی۔ بتاؤ، کیا سوچا ہے؟ کون سا کاروبار کرنا ہے؟ میں تمہें بازار میں اچھی دکان دلا دیتا ہوں۔"

احمد نے گہری سانس لی۔ "نہیں ابا، میں کوئی دکان نہیں لینا چاہتا۔ میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ میں ایک ایپ بنا رہا ہوں جو طلباء کو پڑھائی میں مدد دے گی۔ میں نے ایک سرمایہ کار سے بات بھی کی ہے، وہ پیسے لگانے کو تیار ہے۔"

عبدالمجید کا چہرہ فوراً تبدیل ہو گیا۔ "کیا مطلب؟ ایپ؟ وہ کیا ہوتی ہے؟ فون کا کھیل؟ اور سرمایہ کار؟ کون ہے وہ؟ تم نے کسی اجنبی سے بات کی؟ تمہیں پتہ ہے آج کل کتنی دھوکہ دہی ہو رہی ہے؟ نہیں، میں تمہیں ایسی بکواس کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ تم اپنی نوکری پر فوکس کرو۔ یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔"

"لیکن ابا، یہ مستقبل ہے۔ پوری دنیا میں یہی چل رہا ہے۔ میں کچھ نیا کرنا چاہتا ہوں،" احمد نے اصرار کیا۔

"مستقبل؟ مستقبل یہ ہے کہ تم ایک مستقل نوکری کرو، اپنا گھر بناو، اپنے خاندان کو سنبھالو۔ یہ ایپ ویپ تمہارے بس کا روگ نہیں ہے۔ تمہارے دادا نے جو کاروبار کیا، تمہارے ابا نے جو کیا، وہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ یہ نئی چیزیں تمہیں برباد کر دیں گی۔"

اور بات ختم ہو گئی۔ احمد اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اسے لگا جیسے اس کے سینے پر ایک پہاڑ رکھ دیا گیا ہو۔ اس کی سانس اٹک رہی تھی۔ وہ اپنے ہی گھر میں قیدی کیوں تھا؟ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کیوں نہیں کر سکتا تھا؟

ایک ہفتے بعد، زینب کے ساتھ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ وہ چپکے سے ڈیبیٹ مقابلے میں شامل ہو گئی تھی اور دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ جب وہ ٹرافی لے کر گھر آئی تو اس کے چہرے پر فتح کی مسکراہٹ تھی۔ مگر یہ مسکراہٹ اس وقت غائب ہو گئی جب اس کے والدین نے اسے ڈانٹنا شروع کیا۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟ ہم نے منع کیا تھا نا؟ تم ہماری بات کیوں نہیں مانتی؟" عبدالمجید غصے سے چلّا رہے تھے۔

"لیکن ابا، میں نے تمہارا نام نہیں لیا۔ میں نے صرف اپنے کالج کا نام لیا۔ میں نے دوسری پوزیشن جیتی ہے، یہ لو،" زینب نے ٹرافی ان کی طرف بڑھائی۔

عائشہ خاتون نے ٹرافی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، "بیٹا، ہماری عزت کا خیال کرو۔ لوگ کیا کہیں گے؟ لڑکیاں ایسی جگہوں پر جائیں گی، لوگ بُرے تاثر لیں گے۔ تمہاری شادی کرانی ہے، تمہارا مستقبل ہے۔"

زینب کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر اس بار وہ چپ نہیں رہی۔ "میرا مستقبل؟ کیا میرا مستقبل صرف ایک اچھے رشتے تک محدود ہے؟ میں پڑھنا چاہتی ہوں، میں کچھ بننا چاہتی ہوں۔ میں وکیل بننا چاہتی ہوں۔"

"وکیل؟" عبدالمجید نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ "وہ بھی کوئی لڑکیوں کے لیے پیشہ ہے؟ عدالتوں میں گھنٹوں کھڑے رہنا، مردوں کے درمیان کام کرنا۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ تم ڈاکٹر بنو گی یا پھر کچھ نہیں۔ تمہارے لیے اچھا گھر ڈھونڈا جائے گا۔"

زینب نے ٹرافی فرش پر رکھ دی اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس کے دل ٹوٹنے کی آواز احمد تک پہنچی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں گیا۔ زینب اپنے بستر پر منہ دبا کر رو رہی تھی۔

احمد نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ "زینب، مت رو۔ تم نے بہت اچھا کیا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

زینب نے آنسوؤں بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔ "بھیا، یہ سب کب بدले گا؟ ہم وہ کیوں نہیں کر سکتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں؟ ہماری زندگیاں ان کے خوابوں کی تکمیل کے لیے کیوں وقف ہیں؟"

احمد کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے والدین انہیں چاہتے تھے، ان کی بھلائی چاہتے تھے، مگر ان کی محبت ہی ان کے لیے ایک قید بن گئی تھی۔ ان کی سوچ ایک ایسا گہرا کنواں تھی جس سے نکلنا ناممکن لگتا تھا۔

ایک مہینے بعد، احمد کی پروموشن ہو گئی، مگر انکریمنٹ وہ نہیں تھی جس کی اس کے والدین کو توقع تھی۔ عبدالمجید کئی دنوں تک چپ رہے، ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے۔ احمد نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا اسٹارٹ اپ چپکے سے ہی چلائے گا۔ اس نے اپنی بچت کا کچھ حصہ اس میں لگا دیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگا۔ وہ دفتر کے بعد دیر رات تک کام کرتا، آخر ہفتہ پر بھی۔ اس کی ماں کو شک ہونے لگا۔

ایک دن، اس کی ماں نے اس کے کمرے میں آ کر اسے لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے دیکھا۔ "احمد، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم ہمیشہ تھکے تھکے رہتے ہو۔ دفتر میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟"

احمد نے جھٹ سے لیپ ٹاپ بند کرنا چاہا، مگر وہ جلدی میں تھی۔ "نہیں اماں، سب ٹھیک ہے۔ بس کچھ اضافی کام کر رہا ہوں۔"

مگر عائشہ خاتون نے اس کی بے چینی محسوس کر لی۔ انہوں نے اپنے شوہر سے بات کی۔ اگلے ہی دن، جب احمد دفتر سے واپس آیا، تو اس کے والد اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے اس کے لیپ ٹاپ کی تاریخ دیکھی اور اس کے تمام راز فاش ہو گئے۔

طوفان برپا ہو گیا۔ "تم ابھی تک یہ سب کر رہے ہو؟ ہماری بات ماننے سے تمہیں انکار ہے؟ تم ہماری عزت خاک میں ملا دو گے۔ تمہارا یہ کام چل ہی نہیں سکتا۔ تمہیں پتہ ہے کاروبار کرنا کتنا مشکل ہے؟ تم ناکام ہو جاؤ گے اور پھر تمہاری نوکری بھی چلی جائے گی۔ تمہاری شادی کون کرے گا؟"

احمد نے پہلی بار اپنے والد کے سامنے آواز اٹھائی۔ "ابا، میں کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی زندگی خود جینا چاہتا ہوں۔ میں ناکام ہو بھی جاؤں تو کوئی بات نہیں، میں نے کوشش تو کی ہو گی۔"

"تمہاری زندگی؟" عبدالمجید کی آواز میں طنز تھا۔ "تمہاری زندگی ہم نے بنائی ہے۔ ہم نے تمہیں پالا، پوسا، پڑھایا۔ تمہاری زندگی پر ہمارا حق ہے۔ تم ہماری مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔"

یہ وہ جملہ تھا جس نے احمد کے اندر کے سارے غصے اور مایوسی کو جنم دیا۔ "میں آپ کا غلام نہیں ہوں، ابا۔ میں ایک انسان ہوں، میرے اپنے خواب ہیں۔"

عبدالمجید نے اس کے گال پر ایک طمانچہ مارا۔ "تم ہماری بات مانو گے۔ کل ہی تمہاری نوکری چھوڑ دو۔ میں تمہारے لیے ایک دکان لے دیتا ہوں۔ تم وہی کرو گے جو میں کہوں گا۔"

اور وہ کمرے سے باہر چلے گئے۔ احمد وہیں کھڑا رہ گیا، اس کا گال جل رہا تھا، مگر دل سے زیادہ اس کا دماغ ٹیس اٹھا رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا۔ اسے یہ گھر چھوڑنا ہو گا۔

اگلے ہی دن، اس نے اپنا سامان پیک کیا۔ اس نے اپنی ماں کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ روتی رہیں، اسے ایسا نہ کرنے کی التجا کرتی رہیں۔ اس کے والد خاموش تھے، غصے میں۔ احمد نے دروازے کی طرف قدم بڑھایا تو اس کی ماں نے کہا، "اگر تم یہاں سے گئے تو واپس مت آنا۔"

احمد نے ایک لمحے کو رک کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس کی بہن زینب سیڑھیوں کے اوڑ سے اسے دیکھ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں خوف اور امید دونوں تھے۔ احمد نے اس کی طرف دیکھا، ایک عہد کی نظروں سے، اور پھر دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

باہر کی دنیا اتنی وسیع اور اتنی خوفناک تھی۔ اسے ایک چھوٹا سا کمرہ کرایہ پر ملا۔ اس نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے اسٹارٹ اپ پر پوری طرح سے فوکس کر لیا۔ دن رات محنت کرتا۔ کبھی کبھار وہ اپنی بہن کو خاموشی سے فون کرتا، اسے ہمت دیتا۔ زینب نے بھی خاموشی سے اپنی پڑھائی جاری رکھی، وکیل بننے کے لیے۔

وقت گزرتا گیا۔ احمد کا اسٹارٹ اپ شروع میں تو جدوجہد کرتا رہا، مگر پھر اسے کامیابی کی طرف جانے والا راستہ دکھائی دیا۔ اس کی ایپ کو مقبولیت ملنی شروع ہوئی۔ ایک سال بعد، اس کی کمپنی نے ایک بڑے ادارے کے ساتھ شراکت کی اور اسے اچھی خاصی رقم ملی۔

ایک دن، احمد نے اپنے گھر کا رخ کیا۔ وہ دروازے پر کھڑا تھا، اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے گھنٹی بجائی۔ دروازہ اس کی ماں نے کھولا۔ ان کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے جذبات تھے۔ وہ اندر آیا۔ اس کے والد ہال میں بیٹھے تھے، وہ بوڑھے لگ رہے تھے۔

احمد نے ان کے سامنے ایک اخبار رکھا، جس میں اس کی کامیابی کی کہانی تھی۔ عبدالمجید نے اخبار کو دیکھا، پھر احمد کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ "تم۔۔۔ تم نے کر دکھایا۔"

احمد نے کہا، "ابا، میں نے وہی کیا جو آپ نے کہا تھا۔ میں نے اپنا کاروبار کیا۔ بس راستہ تھوڑا مختلف تھا۔"

عبدالمجید نے سر جھکا لیا۔ "ہم۔۔۔ ہم نے تمہیں سمجھا نہیں۔ ہماری سوچ۔۔۔ ہماری سوچ وقت کے ساتھ نہیں چلی۔ معاف کرنا، بیٹا۔"

یہ معافی احمد کے لیے اس کی تمام کامیابیوں سے زیادہ قیمتی تھی۔ اس دن، اس گھر کی فضا بدلی تو نہیں تھی، مگر ایک نئی شروعات ضرور ہوئی تھی۔ احمد جانتا تھا کہ گھر والوں کی سوچ کو بدلنا آسان نہیں ہو گا، مگر اب وہ امید کر سکتا تھا۔ کیونکہ محبت، اگرچہ محدود سوچ میں قید ہو، آخرکار محبت ہی تو ہوتی ہے۔ اور محبت ہی ہر دیوار میں دراڑیں ڈال سکتی ہے۔