کہانی گھر

وہ عجیب و غریب وراثت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وہ عجیب و غریب وراثت جس کی کوئی وضاحت نہ تھی، ایک پراسرار خط کے ساتھ اُس وقت ملی جب زینب اپنی زندگی کی سب سے بڑی ذہنی اُلجھنوں سے گزر رہی تھی۔ وہ کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں نفسیات کی لیکچرار تھی، اپنے شعبے میں نام پیدا کر چکی تھی مگر اُس کی ذاتی زندگی تیزی سے بکھر رہی تھی۔ اُس کا اکلوتا سہارا سمجھا جانے والا اُس کا شوہر، عمر، چند ماہ قبل ایک کار حادثے میں اسے چھوڑ کر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا تھا۔ گہرے غم کے اس سمندر میں وہ خود کو بے حد تنہا محسوس کر رہی تھی کہ اُسے ایک ایسی وراثت کی اطلاع ملی جس کا اُس کے پاس کوئی وجود نہ تھا۔

خط ایک بزرگ وکیل، جناب سلیمان احمد خان کی جانب سے آیا تھا، جن کا دفتر لاہور کے پرانے اور پراسرار علاقے میں واقع تھا۔ خط میں محض اتنا لکھا تھا کہ زینب کے نام اُس کے نانا، جناب فضل الرحمان کی جانب سے ایک وراثت مقرر کی گئی ہے جس کے حصول کے لیے اُسے لاہور حاضر ہونا ہوگا۔ یہ بات زینب کے لیے حیرت کا باعث تھی کیونکہ اُس نے اپنے نانا کو کبھی دیکھا تک نہ تھا۔ اُس کی ماں، جو خود اُس کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی، اپنے والد کا نام لینے سے ہمیشہ گریز کرتی تھی۔ زینب کے اپنے والد نے بھی اِس موضوع پر کبھی بات نہیں کی تھی۔ یہ خاندان کا ایک ایسا سربستہ راز تھا جسے زینب نے کبھی کھولنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

مگر اب، اِس نازک وقت پر، یہ پراسرار خط اُس کے لیے ایک curiosité بن گیا۔ شاید یہ غم سے نکلنے کا ایک بہانہ تھا، یا پھر کوئی اندرونی آواز اُسے لاہور جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد، اُس نے چھٹی لے کر لاہور کا رخ کیا۔ ہوائی جہاز سے اترتے ہی لاہور کی مرطوب ہوا نے اُس کا استقبال کیا۔ پرانے شہر کی گلیوں میں سے گزرتی ہوئی وہ جناب سلیمان احمد خان کے دفتر پہنچی، جو ایک سو سالہ پرانی عمارت کے دوسرے منزل پر واقع تھا۔ عمارت کی بلڈنگ پر زمانے کی دھول جمی ہوئی تھی اور لکڑی کے پرانے دروازے نے اُسے ماضی کے کسی دور میں پہنچا دیا۔

وکیل ایک عمر رسیدہ شخص تھے، جن کی آنکھوں میں تجسس اور عقل کی چمک تھی۔ اُنہوں نے زینب کو نہایت خلوص سے سلام کیا اور ایک پرانی میز پر رکھا ہوا ایک بھاری لفافہ اُس کی طرف بڑھا دیا۔

"بیٹی، تمہارے نانا فضل الرحمان ایک عجیب انسان تھے۔ وہ ایک مسیحا بھی تھے اور ایک راز بھی۔ اُنہوں نے اپنی تمام جائیداد اور دولت خیراتی اداروں کے حوالے کر دی تھی، مگر تمہارے لیے ایک خاص چیز چھوڑی ہے۔"

زینب نے حیرت سے لفافہ کھولا۔ اُس کے اندر ایک پرانا چابیوں کا گچھا تھا اور ایک نقشہ جس پر لاہور کے اندرون شہر کی ایک گلی کا نام لکھا تھا۔ کوئی رقم نہیں، کوئی زیورات نہیں، صرف چابیاں اور ایک پتہ۔

"یہی ہے وراثت؟" زینب نے مایوسی سے پوچھا۔

وکیل نے مسکراتے ہوئے کہا، "ہاں، اور میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے نانا کی نظر میں یہ دنیا کی سب سے بیش قیمت چیز ہے۔ یہ چابیاں اُس مکان کی ہیں جو تمہارے نانا کا ذاتی مطالعہ اور تجربہ گاہ تھا۔ وہ ایک ماہرِ نفسیات تھے، تمہاری طرح۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے یہ وراثت خاص تمہارے لیے چھوڑی ہے۔"

یہ سن کر زینب کی حیرت اور بھی بڑھ گئی۔ اُسے کبھی معلوم نہیں تھا کہ اُس کے نانا بھی اُس کے ہی شعبے سے وابستہ تھے۔ اُس کے اندر ایک جوش اور تجسس کی لہر دوڑ گئی۔ اُس نے وکیل کا شکریہ ادا کیا اور نقشے کی طرف دیکھتے ہوئے اُس پر بنے نشان کی طرف روانہ ہو گئی۔

گلیاں اتنی تنگ تھیں کہ گاڑی کا وہاں داخلہ ناممکن تھا۔ زینب نے گاڑی باہر کھڑی کی اور پیدل ہی اُس پرانی عمارت کو ڈھونڈنے لگی جس کا نشان نقشے پر بنا ہوا تھا۔ آخرکار وہ ایک ایسی عمارت کے سامنے کھڑی ہو گئی جس کا دروازہ لکڑی کا بنا ہوا تھا اور اُس پر پیٹینا چڑھا ہوا تھا۔ دروازے پر ایک پرانی، مٹی سے اٹی ہوئی تختی پر لکھا تھا: "فضل الرحمان، ماہرِ نفسیات و محقق"۔

زینب کے ہاتھوں میں تھر تھراہٹ تھی جب اُس نے چابیوں کے گچھے میں سے ایک چابی دروازے کے تالے میں ڈالی۔ تالے نے کڑکڑاہٹ کی آواز نکالی اور دروازہ کھل گیا۔ اندر ایک زنجیر لگی ہوئی تھی جسے اُس نے کھولا اور ایک تاریک راستے میں داخل ہو گئی۔

عمارت کے اندر کی ہوا میں دھول اور پرانی کتابوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ وہ ایک بڑے کمرے میں کھڑی تھی جو ایک لائبریری اور سٹڈی روم کا مرکب لگ رہا تھا۔ ہر طرف کتابیں تھیں، پرانے قلم تھے، اور دیواروں پر مختلف قسم کے خاکے اور فارمولے لکھے ہوئے تھے۔ ایک بڑی میز کے اوپر ایک پرانا مائیکرو سکوپ پڑا تھا اور اُس کے ساتھ ہی کچھ شیشے کے برتن رکھے ہوئے تھے۔

زینب نے آہستہ آہستہ کمرے کا چکر لگایا۔ اُس کی نظر ایک بڑی الماری پر پڑی جس کے اندر فائلیں تھीं۔ اُس نے ایک فائل نکالی جس پر لکھا تھا: "انسان کے خوابوں کی تعبیر اور اُن کا نفسیاتی پہلو"۔ دوسری فائل پر تھا: "لا شعور کی گہرائیوں میں چھپے راز"۔ ہر فائل اُس کے نانا کے کام کی گہرائی کو ظاہر کر رہی تھی۔

اچانک اُس کی نظر ایک چھوٹی سی میز پر پڑی جس پر ایک پرانا ڈائری پڑی ہوئی تھی۔ ڈائری کے اوپر ایک خط رکھا ہوا تھا جس پر لکھا تھا: "میری پوتی زینب کے نام"۔ زینب کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اُس نے خط کو ہاتھوں میں لیا اور آہستہ سے کھولا۔

خط میں اُس کے نانا نے لکھا تھا:

"میری پیاری پوتی زینب، اگر تم یہ خط پڑھ رہی ہو تو سمجھ لو کہ تم میری اس وراثت کے قابل ثابت ہو چکی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ تم مجھے کبھی نہیں جان پائیں، مگر میں ہمیشہ تمہاری زندگی کے اتار چڑھاؤ سے واقف رہا۔ تمہاری ماں نے میرے خلاف بہت سی باتیں کی ہوں گی، مگر مجھے امید ہے کہ تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھو گی اور اپنے دل سے فیصلہ کرو گی۔ یہ مکان اور یہاں موجود تمام تحقیقات میری زندگی بھر کی محنت ہیں۔ میں نے انسان کے لا شعور کی گہرائیوں میں اتر کر ایسے راز دریافت کیے ہیں جو عام لوگوں کے لیے ناقابلِ فہم ہیں۔ تم بھی ایک ماہرِ نفسیات ہو، شاید تم ہی وہ واحد شخص ہو جو میرے کام کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ میری ڈائری تمہاری رہنما ہوگی۔ اسے پڑھو، سمجھو، اور پھر فیصلہ کرو۔ تمہارا نانا، فضل الرحمان۔"

زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُسے اپنے نانا کی آواز میں ایک ایسی مامتا محسوس ہوئی جس کا اُسے ہمیشہ سے انتظار تھا۔ اُس نے ڈائری اٹھائی اور اُس کے پہلے صفحے کو پلٹا۔

ڈائری کے پہلے صفحے پر لکھا تھا: "ہر انسان کے اندر ایک ایسی دنیا آباد ہے جو اُس کے اپنے لیے بھی پراسرار ہے۔ ہمارا لا شعور ہماری سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے خوابوں کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ ہماری حقیقت کو بھی تشکیل دیتا ہے۔"

زینب ڈائری پڑھتے ہوئے گھنٹوں بیٹھی رہی۔ اُس کے نانا نے لا شعور کی طاقت پر ایسی تحقیقات کی تھیں جنہیں پڑھ کر وہ دنگ رہ گئی۔ وہ لکھتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنے لا شعور کو کنٹرول کرنا سیکھ لے تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بدل سکتا ہے بلکہ دوسروں کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ایک جگہ پر اُنہوں نے ایک ایسے آلے کا ذکر کیا تھا جسے اُنہوں نے "لا شعور کا آئینہ" کا نام دیا تھا۔ اُس آلے کی مدد سے وہ انسان کے لا شعور میں موجود خوف، خواب اور آرزؤں کو دیکھ سکتے تھے۔ زینب کو یہ سب کچھ ایک فنتاسی لگا، مگر اُس کے نانا کی ڈائلیٹ تحریر میں ایک ایسی سچائی تھی جس سے انکار ممکن نہیں تھا۔

اُس نے ڈائری میں درج ہدایات کے مطابق کمرے کے ایک کونے میں رکھی ایک بڑی الماری کو کھولا۔ الماری کے اندر ایک عجیب و غریب آلہ رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک بڑے شیشے کے ٹکڑے کی مانند تھا جس کے ساتھ مختلف تاروں اور بٹنوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ آلے کے اوپر ایک تختی پر لکھا تھا: "آئینۂ لا شعور"۔

زینب نے حیرت سے آلے کو دیکھا۔ کیا واقعی یہ آلہ کام کرتا تھا؟ کیا یہ انسان کے ذہن کے اندر جھانک سکتا تھا؟ اُس کے اندر کے سائنس دان نے اسے مسترد کرنا چاہا، مگر اُس کے نانا کے الفاظ نے اُسے آزمائش پر مجبور کر دیا۔

ڈائری میں لکھے ہوئے ہدایات کے مطابق، اُس نے آلے کے تاروں کو اپنے سر سے لگایا اور بٹن دبایا۔ شیشے کے ٹکڑے پر پہلے تو کچھ نہیں ہوا، مگر پھر دھیرے دھیرے روشنی کی لہریں ابھرنے لگیں۔ یہ لہریں تیز ہوتی گئیں اور آخرکار ایک تصویر بن گئیں۔

زینب نے دیکھا کہ شیشے پر ایک چھوٹی سی لڑکی کھیل رہی ہے۔ وہ لڑکی خود زینب تھی، اُس کی ماں کے ساتھ۔ یہ اُس کا ایک پرانا خواب تھا جو اُسے بار بار آتا تھا۔ اُس کی ماں اُسے گود میں اٹھائے ہوئے تھی اور زینب قہقہے لگا رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر زینب کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہ آلہ واقعی کام کر رہا تھا۔ یہ اُس کے لا شعور میں موجود ایک پرانی یاد کو دیکھ رہا تھا۔

اُس نے آلہ بند کر دیا اور پیچھے ہٹ گئی۔ اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ کیا اُس کے نانا واقعی ایسی ایجاد کر چکے تھے؟ اگر ایسا تھا تو یہ ایجاد نفسیات کی دنیا میں ایک انقلاب تھی۔

اگلے کئی دنوں تک زینب اُسی مکان میں رہی۔ وہ روزانہ اپنے نانا کی ڈائری پڑھتی، اُن کی تحقیقات کو سمجھنے کی کوشش کرتی۔ اُسے احساس ہوا کہ اُس کے نانا نے نہ صرف لا شعور کے رازوں کو سمجھا تھا بلکہ اُنہوں نے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ انسان اپنے خوف اور درد کو لا شعور میں دبا کر اپنی شخصیت کو کیسے متاثر کرتا ہے۔

ایک دن ڈائری کے آخری صفحات پر اُسے ایک عجیب حوالہ ملا۔ اُس کے نانا نے لکھا تھا کہ اُنہوں نے اپنی تحقیق کے دوران ایک ایسا طریقہ دریافت کیا تھا جس کی مدد سے انسان اپنے ماضی کے صدمات کو لا شعور سے نکال کر اُن کا سامنا کر سکتا ہے اور اُن سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ مگر اُنہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ طریقہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے صدمات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ اُس کے ذہنی توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔

زینب کے ذہن میں اُس کے اپنے صدمات کا خیال آیا۔ اُس کا شوہر، عمر، اُس کی زندگی سے اس طرح چلا گیا تھا کہ اُسے موقع تک نہیں ملا تھا کہ وہ اُس سے الوداع کہہ سکے۔ یہ صدمہ اُس کے لا شعور میں گہرے تک بیٹھا ہوا تھا۔ کیا وہ اپنے نانا کے طریقے سے اس صدمے سے نکل سکتی تھی؟

اُس نے ڈائری میں درج ہدایات کو دوبارہ پڑھا۔ طریقہ کار میں "آئینۂ لا شعور" کا استعمال شامل تھا۔ انسان کو اپنے صدمے کی اصل جڑ تک پہنچنا تھا اور پھر اُس کا سامنا کرنا تھا۔

زینب نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ خطرہ مول لے گی۔ اُس نے آلے کو دوبارہ چالو کیا اور تاروں کو اپنے سر سے لگا لیا۔ اُس نے اپنے ذہن میں عمر کے آخری لمحات کو یاد کیا۔

شیشے پر دھندلکی سی تصاویر ابھرنے لگیں۔ وہ ایک سڑک پر تھی، بارش ہو رہی تھی۔ اُس نے دیکھا کہ عمر گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ اُسے کچھ کہہ رہا تھا، مگر آوازیں واضح نہیں تھیں۔ پھر ایک تیز روشنی، پھر ایک زوردار دھماکا۔ زینب نے درد سے آنکھیں بند کر لیں۔ یہ وہ منظر تھا جسے وہ ہمیشہ بھلانا چاہتی تھی۔

مگر اُس نے ہمت نہیں ہاری۔ اُس نے ڈائری میں لکھے ہوئے طریقے کے مطابق، اپنے دماغ کو پُرسکون رکھا اور اُس صدمے کا سامنا کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ عمل تھا۔ وہ بار بار اُسی حادثے میں واپس جا رہی تھی، اُسی درد کو محسوس کر رہی تھی۔

کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد، اچانک کچھ بدلا۔ شیشے پر اب صرف حادثہ نہیں تھا، بلکہ اُس کے بعد کا منظر تھا۔ وہ ہسپتال میں تھی، عمر کے پاس۔ عمر نے اُس کی آنکھیں کھولیں اور اُسے ایک مسکراہٹ دی۔ پھر اُس نے اپنے ہونٹ ہلائے اور کچھ کہا۔ زینب نے آلے کی آواز کو بڑھا دیا۔

عمر کی آواز آئی: "زینب، میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ تمہاری زندگی ہمیشہ خوشیاں بھری رہے۔ تم مضبوط رہنا۔"

یہ وہ الفاظ تھے جو زینب کو یاد نہیں تھے۔ حادثے کے بعد وہ کچھ دنوں کے لیے بے ہوش رہی تھی، اور جب ہوش میں آئی تو اُسے بتایا گیا تھا کہ عمر فوت ہو چکا ہے۔ مگر اب وہ دیکھ رہی تھی کہ جب وہ بے ہوش تھی، عمر نے اُس سے یہ آخری الفاظ کہے تھے۔

یہ دریافت زینب کے لیے ایک ریلیف کی مانند تھی۔ اُسے احساس ہوا کہ عمر نے اُسے بغیر الوداع کہے نہیں چھوڑا تھا۔ اُس کے لا شعور میں یہ یاد محفوظ تھی، مگر صدمے نے اُسے دبا دیا تھا۔ اب جب کہ وہ اس یاد تک پہنچ چکی تھی، اُس کا دل ہلکا ہو گیا۔

اُس نے آلہ بند کر دیا اور گہری سانسیں لینے لگی۔ یہ پہلی بار تھا کہ اُسے اپنے نانا کی وراثت کی حقیقی قدر محسوس ہوئی۔ یہ صرف ایک مکان یا ڈائری نہیں تھی، یہ ایک ایسی تحفہ تھی جس نے اُس کی زندگی بدل دی تھی۔

زینب نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے نانا کے کام کو آگے بڑھائے گی۔ اُس نے لاہور میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور اُس پرانے مکان کو ایک جدید ریسرچ سنٹر میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اُس نے جناب سلیمان احمد خان سے رابطہ کیا اور اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔

وکیل نے اُس کے فیصلے کی تعریف کی اور اُسے ایک اور راز سے آگاہ کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ زینب کے نانا نے اپنی تحقیق کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا جس کے تحت زینب کو ہر ماہ ایک خاص رقم ملتی رہے گی تاکہ وہ اپنے کام کو جاری رکھ سکے۔

زینب کے لیے یہ ایک اور حیرت کا باعث تھا۔ اُس کے نانا نے نہ صرف اُس کے لیے ایک علمی وراثت چھوڑی تھی بلکہ اُس کے مالی مسائل کا بھی خیال رکھا تھا۔

اگلے کئی مہینوں تک زینب نے اپنے نانا کے کام کو سمجھنے اور آگے بڑھانے میں گزارے۔ اُس نے "آئینۂ لا شعور" کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ملایا اور اُسے زیادہ مؤثر بنایا۔ اُس نے ایسے مریضوں پر تجربات شروع کیے جو ماضی کے صدمات سے جوجھ رہے تھے۔

اُس کا پہلا مریض ایک نوجوان لڑکی تھی جسے پانی کا شدید خوف تھا۔ "آئینۂ لا شعور" کی مدد سے زینب نے دریافت کیا کہ بچپن میں اُس لڑکی کا ایک حادثہ ہوا تھا جب وہ تالاب میں گر گئی تھی۔ اُس نے اُس لڑکی کو اُس حادثے کا سامنا کرایا اور بتایا کہ اب وہ بالغ ہو چکی ہے اور اُس حادثے سے بچ سکتی ہے۔ چند ہی ہفتوں میں وہ لڑکی اپنے خوف پر قابو پا چکی تھی۔

یہ کامیابی زینب کے لیے ایک بہت بڑی حوصلہ افزائی تھی۔ اُس نے اپنے نانا کے طریقہ کار کو جدید خطوط پر استوار کیا اور اُسے "نفسیاتی شفا" کا نام دیا۔

ایک دن، جب زینب اپنے کام میں مصروف تھی، اُسے ایک پراسرار فون آیا۔ فون کرنے والے نے خود کو ڈاکٹر احمد حسن کے طور پر متعارف کرایا، جو ایک بین الاقوامی ادارے سے وابستہ تھے۔ اُنہوں نے زینب کے نانا کے کام کے بارے میں سنا تھا اور اُس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔

زینب نے اُنہیں ملنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر احمد حسن ایک شائستہ اور پُراعتماد شخص تھے۔ اُنہوں نے زینب کے نانا کے کام کی تعریف کی اور اُسے اپنے ادارے کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی۔

مگر زینب کو ڈاکٹر احمد پر شک تھا۔ اُن کی باتوں میں ایک مصنوعیت تھی، اور وہ بار بار "آئینۂ لا شعور" کے ڈیزائن اور طریقہ کار کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ زینب نے محتاط رہنے کا فیصلہ کیا اور اُنہیں کوئی اہم معلومات دینے سے انکار کر دیا۔

کچھ دنوں بعد، زینب نے محسوس کیا کہ اُس کے مکان کے باہر کچھ مشکوک شخصیتوں کا آنا جانا بڑھ گیا ہے۔ ایک رات، جب وہ اپنی ڈائری پڑھ رہی تھی، اُسے عمارت کے اندر سے آوازیں آئیں۔ کوئی اُس کے مکان میں گھس آیا تھا۔

زینب نے خاموشی سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور پولیس کو فون کیا۔ اُس نے "آئینۂ لا شعور" کو چھپانے کی کوشش کی، مگر چوروں نے دروازہ توڑ دیا۔ وہ دو افراد تھے جن کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے زینب سے آلے اور ڈائری کے بارے میں پوچھا۔

زینب نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُس نے اُنہیں بتایا کہ پولیس راستے میں ہے اور وہ بہتر ہوگا کہ وہ چلے جائیں۔ چوروں نے دھمکیاں دیں، مگر اُسی وقت پولیس کی گاڑیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ چور بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔

یہ واقعہ زینب کے لیے ایک wake-up call تھا۔ اُسے احساس ہوا کہ اُس کے نانا کا کام کتنا قیمتی تھا اور کتنے لوگ اُسے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اُس نے اپنے تحفظ کے لیے اضافی اقدامات کیے اور "آئینۂ لا شعور" کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔

اُس نے ڈاکٹر احمد حسن کی background check کرائی تو پتا چلا کہ وہ کسی بین الاقوامی ادارے سے نہیں بلکہ ایک نجی کمپنی سے وابستہ تھے جو ذہنی کنٹرول اور مینپولیشن پر کام کر رہی تھی۔ واضح تھا کہ وہ زینب کے نانا کی ایجاد کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔

زینب نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے کام کو عوامی طور پر پیش نہیں کرے گی بلکہ صرف قابلِ بھروسہ ماہرینِ نفسیات کے ساتھ کام کرے گی۔ اُس نے ایک چھوٹی سی ٹیم بنائی اور اپنے تحقیقات کو جاری رکھا۔

ایک سال گزر گیا۔ زینب کی زندگی میں ڈرامائی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ وہ اب صدمے سے باہر نکل آئی تھی اور اپنے کام میں پوری طرح مگن تھی۔ اُس کے نانا کی وراثت نے نہ صرف اُس کی زندگی بدلی تھی بلکہ اُسے ایک ایسا مقصد دیا تھا جس کے لیے وہ جی رہی تھی۔

ایک دن، اُسے اپنے نانا کی ڈائری کے آخری صفحے پر ایک چھپا ہوا پیغام ملا۔ اُس صفحے پر پانی کا نشان لگا کر ایک لکیر کھینچی گئی تھی جسے پڑھا نہیں جا سکتا تھا۔ زینب نے ایک خاص روشنی کے تحت اُس صفحے کو دیکھا تو اُس پر لکھا ہوا تھا: "زینب، اگر تم یہ پڑھ رہی ہو تو سمجھ لو کہ تم میری تحقیق کی حقیقی وارث بن چکی ہو۔ تمہارے سامنے ایک اور چیلنج ہے۔ تمہیں 'آئینۂ لا شعور' کو ایسے مریضوں پر استعمال کرنا ہے جو coma میں ہیں۔ شاید تم اُنہیں واپس لا سکو۔ یہ میری آخری خواہش ہے۔"

زینب نے یہ پڑھا تو اُس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ coma کے مریضوں کو واپس لانا؟ کیا یہ ممکن تھا؟ مگر اُس کے نانا کے الفاظ میں ایک ایسی یقین دہانی تھی کہ اُسے لگا کہ یہ نا ممکن نہیں تھا۔

اُس نے فوری طور پر اپنی تحقیق کا رخ coma کے مریضوں کی طرف موڑ دیا۔ اُس نے ہسپتالوں کے ساتھ رابطہ کیا اور coma میں lying مریضوں پر تجربات شروع کیے۔

پہلا مریض ایک بوڑھا شخص تھا جو چھ ماہ سے coma میں تھا۔ زینب نے "آئینۂ لا شعور" کو اُس کے سر سے لگایا اور اُس کے لا شعور میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

شیشے پر عجیب و غریب تصاویر ابھرنے لگیں۔ وہ ایک تاریک tunnel میں تھی، جہاں دور ایک روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ زینب نے ڈائری میں درج ہدایات کے مطابق، اُس روشنی کی طرف جانے کی کوشش کی۔

آہستہ آہستہ، وہ روشنی کے قریب پہنچی۔ روشنی کے درمیان میں اُس بوڑھے شخص کی شبیہہ کھڑی تھی۔ زینب نے اُسے پکارا، اُسے واپس آنے کے لیے کہا۔

شبیہہ نے مُڑ کر دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔ زینب نے اُسے بتایا کہ اُس کا خاندان اُس کا انتظار کر رہا ہے، اُسے واپس آنا چاہیے۔

کچھ دیر بعد، شبیہہ نے ہاں میں سر ہلایا۔ زینب نے آلہ بند کر دیا۔ اگلے دن، ہسپتال سے خبر آئی کہ وہ بوڑھا شخص coma سے باہر آ گیا ہے۔

یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ زینب کے کام کو میڈیا میں نمایاں coverage ملی، مگر اُس نے اپنے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ ۔