کہانی گھر

دو دوستوں کی تجارتی مہم

دو دوستوں کی کاروباری جدوجہد کی دلچسپ کہانی، جو دوستی کی طاقت، چیلنجز، اور کامیابی کی راہ دکھاتی ہے۔

وہ صبح تھی جب فیضان اور جلال نے اپنی زندگی کی پہلی مشترکہ کامیابی کا جشن منانے کا فیصلہ کیا۔ دونوں گلی کے نکڑ پر کھڑے تھے، ان کے سامنے ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کے شیشے کے دروازے پر "چائے خانہ" لکھا ہوا تھا۔ یہ لفظ جلال نے خود لکھے تھے، اس کی تخلیقی صلاحیتیں اس کی انگلیوں سے ٹپکتی تھیں۔ فیضان نے اپنے ہاتھوں میں دو چھوٹے کپ تھامے ہوئے تھے، جن میں سے ابلتی ہوئی چائے کی خوشبو فضا میں گھل رہی تھی۔

"کیا خیال ہے جلال؟ ہماری اپنی دکان۔" فیضان نے ایک کپ جلال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، اس کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو صرف خوابوں کے پورے ہونے پر آتی ہے۔

جلال نے کپ کو ہاتھوں میں لیا، اس کی انگلیوں پر تھوڑی سی چائے چھلک گئی۔ "بالکل وہی جو ہم نے سوچا تھا، فیضان۔ بس اب اسے چلانا ہے۔" اس کی نظر دکان کے اندر جھانک رہی تھی، جہاں چیزیں ابھی تھوڑی بے ترتیب تھیں۔

یہ دونوں دوست بچپن سے ساتھ تھے۔ فیضان ہمیشہ سے منظم اور حساب کتاب میں ماہر تھا، جبکہ جلال کی فطرت میں لاپروائی اور آزادی تھی۔ ان کی یہ دوستی ایک عجیب تضاد تھی جو کسی طرح کامل ہم آہنگی پیدا کرتی تھی۔ چائے کی دکان کا خیال بھی فیضان کا تھا، جو شہر کے مصروف ترین علاقے میں ایک پرامید کاروبار ثابت ہو سکتا تھا۔

پہلے دن کا آغاز ہوا تو فیضان نے اپنی بڑی سی کھاتہ کتاب نکالی اور ہر چیز کو نوٹ کرنا شروع کر دیا۔ "دیکھو جلال، کاروبار کی بنیاد ہی حساب کتاب ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا ہر روپیہ کہاں جا رہا ہے۔"

جلال نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "ارے یار، اتنی سنجیدگی کی کیا ضرورت ہے؟ چائے بنانی آتی ہے، گاہک آئیں گے، پیسے ملیں گے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔" یہ کہہ کر اس نے اپنا تھرموس اٹھایا اور چائے بنانے کے لیے کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔

پہلے گاہک کے داخل ہوتے ہی فرق واضح ہو گیا۔ فیضان نے فوراً کھاتہ کتاب میں اندراج کرنا شروع کر دیا جبکہ جلال نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔ "آئیے صاحب! کیا حال ہے؟ آج کیسے چائے پسند کریں گے؟"

گاہک نے حیرت سے جلال کو دیکھا، پھر مسکرا دیا۔ "ایک عام چائے بنا دیجیے۔"

جلال نے چائے بناتے ہوئے گاہک سے بات چیت جاری رکھی، اس کے چہرے پر وہ مسکراہٹ تھی جو دل جیت لیتی تھی۔ فیضان یہ سب دیکھ رہا تھا، اسے احساس ہو رہا تھا کہ جلال کی یہ صلاحیت بھی کاروبار کے لیے اتنی ہی اہم ہے جتنا اس کا حساب کتاب۔

دن گزرتے گئے اور دکان نے اپنی ایک الگ پہچان بنانی شروع کر دی۔ فیضان ہر صبح سب سے پہلے آتا، دکان کو صاف ستھرا کرتا، سامان کو ترتیب سے رکھتا، اور کھاتہ کتاب تیار کرتا۔ جلال کچھ دیر بعد آتا، اس کے کپڑوں پر چائے کے دھبے ہوتے، بال بکھرے ہوتے، لیکن چہرے پر وہی مسکراہٹ ہوتی۔

ایک دن فیضان نے دکان کی الماریوں کو دوبارہ ترتیب دیا، ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھا۔ جب جلال آیا تو اس نے حیرت سے دیکھا، "ارے، تم نے تو سب کچھ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میں تو اب کچھ بھی نہیں ڈھونڈ سکتا۔"

فیضان نے صفائی کے بعد چمکتے ہوئے گلاس کو ہاتھ میں لے کر کہا، "یہی تو فرق ہے ہمارے کام کرنے کے طریقوں میں۔ تم ہر چیز کو بے ترتیب چھوڑ دیتے ہو، میں سب کچھ منظم رکھتا ہوں۔"

جلال نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "لیکن دیکھو نا، ہماری دکان چل رہی ہے۔ گاہک آ رہے ہیں، چائے بیچ رہے ہیں۔ کیا کمی ہے؟"

فیضان نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "کوئی کمی نہیں ہے، لیکن ہم بہتر کر سکتے ہیں۔"

اسی دوران ایک گاہک داخل ہوا۔ جلال فوراً اس کی طرف بڑھا، "آئیے جناب! آج کیا حال ہے؟ کیا آپ نے کل والی کرکٹ میچ دیکھی؟"

گاہک نے مسکرا کر جواب دیا، "ہاں دیکھی تھی، بہت زبردست میچ تھا۔"

جلال نے چائے بناتے ہوئے کرکٹ پر بات جاری رکھی۔ فیضان نے دیکھا کہ گاہک کی مسکراہٹ وسیع ہو رہی ہے، اور وہ جلال کی باتوں میں دلچسپی لے رہا ہے۔ جب گاہک چائے لے کر چلا گیا تو فیضان نے کہا، "تمہیں پتہ ہے، تمہاری یہ بات چیت کی صلاحیت واقعی قابل رشک ہے۔"

جلال نے فخریہ انداز میں سر ہلایا، "دیکھا! ہر ایک کی اپنی خاصیت ہوتی ہے۔ تم حساب کتاب میں ماہر ہو، میں لوگوں سے بات چیت میں۔"

ایک اور دن کی بات ہے جب فیضان نے دکان میں ایک نئی قسم کی چائے متعارف کرائی۔ اس نے ہر چیز کا حساب کتاب کر رکھا تھا، لاگت، منافع، سب کچھ۔ جلال نے اس نئی چائے کو بنانے میں دلچسپی ظاہر کی، لیکن اس کا طریقہ کار بالکل الگ تھا۔

فیضان نے احتیاط سے ہر جزو کو ماپا، درجہ حرارت چیک کیا، اور وقت کا خیال رکھا۔ جلال نے بغیر کسی پیمائش کے چائے بنانی شروع کی، اپنے ذوق کے مطابق مصالحے ڈالے، اور ایک نئی ترکیب ایجاد کر ڈالی۔

جب پہلا گاہک آیا تو جلال نے فخریہ انداز میں نئی چائے پیش کی۔ گاہک نے پہلا گھونٹ لیا، اس کے چہرے پر حیرت اور مسرت کے جذبات ابھرے۔ "واہ! یہ چائے تو بہت زبردست ہے۔"

فیضان حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے جلال سے پوچھا، "تم نے اس میں کیا ڈالا تھا؟"

جلال نے مسکراتے ہوئے کہا، "پتہ نہیں، جو دل میں آیا ڈال دیا۔ بس تجربہ کر رہا تھا۔"

یہ واقعہ فیضان کے لیے ایک سبق تھا۔ اسے احساس ہوا کہ کبھی کبھی لاپروائی بھی تخلیق کا باعث بن سکتی ہے۔

موسم بدل رہے تھے اور سردیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ دکان میں گاہکوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، کیونکہ سردیوں میں چائے کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ فیضان اور جلال کی شراکت داری مضبوط ہو رہی تھی، اگرچہ ان کے کام کے طریقے اب بھی مختلف تھے۔

ایک سرد صبح، جلال نے دکان کا دروازہ کھولا تو اس نے دیکھا کہ فیضان پہلے سے ہی موجود ہے اور ایک نئی کھاتہ کتاب تیار کر رہا ہے۔ "ارے، تم آج بہت جلدی آ گئے۔"

فیضان نے سر اٹھایا، اس کی آنکھوں میں تھکاوٹ تھی۔ "ہاں، کل رات سے کچھ حساب کتاب کر رہا تھا۔ ہمیں اپنے اخراجات پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔"

جلال نے فیضان کے کندھے پر ہاتھ رکھا، "تم ہمیشہ پریشان رہتے ہو۔ آؤ، پہلے تمہارے لیے چائے بناتا ہوں۔"

یہ جلال کی فطرت تھی - لاپرواہ ہونے کے باوجود وہ اپنے دوست کی فکر کرتا تھا۔ فیضان نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا، اور اسے احساس ہوا کہ ان کی دوستی کاروبار سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

دن کے دوران، ایک بوڑھا آدمی دکان میں داخل ہوا۔ وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا اور اس کے کپڑے پرانے تھے۔ جلال نے فوراً اس کا استقبال کیا، "آئیے چچا جان، بیٹھ جائیے۔ آج کیسی چائے پسند کریں گے؟"

بوڑھے آدمی نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "بیٹا، بس ایک عام سی چائے بنا دو۔"

جلال نے چائے بنائی، لیکن اس میں تھوڑا سا اضافی دودھ اور چینی ڈال دی۔ جب اس نے چائے پیش کی تو بوڑھے آدمی کے چہرے پر تشکر کا اظہار تھا۔ فیضان یہ سب خاموشی سے دیکھ رہا تھا، اور اسے جلال پر فخر محسوس ہو رہا تھا۔

جب بوڑھا آدمی چلا گیا تو فیضان نے کہا، "تم نے اس کے لیے خاص چائے بنائی تھی، ہے نا؟"

جلال نے معصومانہ انداز میں کہا، "ارے، وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ تھوڑی سی مٹھاس سے دل خوش ہو جاتا ہے۔"

فیضان نے سوچا کہ شاید یہی وہ انسانی رابطہ ہے جو کاروبار کو کامیاب بناتا ہے، اور جلال میں یہ صلاحیت فطری تھی۔

ہفتے گزرتے گئے اور دکان مقبول ہوتی گئی۔ لوگ نہ صرف چائے کے لیے آتے، بلکہ جلال کی باتوں اور فیضان کی مہمان نوازی کے لیے بھی۔ دونوں دوستوں کی مختلف خصوصیات مل کر دکان کو ایک منفرد مقام بنا رہی تھیں۔

ایک روز، فیضان نے دکان میں ایک نئی سجاوٹ کا فیصلہ کیا۔ اس نے ہر چیز کو بدل ڈالا - میزوں کی ترتیب، کاؤنٹر کا مقام، یہاں تک کہ چائے کے برتنوں کو بھی نئے سرے سے ترتیب دیا۔ جلال جب آیا تو وہ حیران رہ گیا۔

"واہ! یہ کیا تبدیلی ہے؟" جلال نے دکان کے اندر قدم رکھتے ہوئے کہا۔

فیضان نے فخریہ انداز میں کہا، "کیا خیال ہے؟ میں نے سوچا کہ تھوڑی سی تبدیلی اچھی رہے گی۔"

جلال نے دکان کا جائزہ لیا، "بہت خوب! لیکن تمہیں پتہ ہے، تم نے میرا پسندیدہ کپ کہاں رکھ دیا ہے؟"

فیضان نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "دوسری الماری میں، دوسری شیلف پر، بالکل سیدھے کونے میں۔"

جلال نے سر ہلایا، "تم ہمیشہ ہر چیز کا حساب رکھتے ہو۔"

اسی دن دوپہر کے وقت، ایک خاتون دکان میں داخل ہوئی۔ وہ بہت مہذب اور سنجیدہ لگ رہی تھی۔ فیضان نے فوراً اس کا استقبال کیا، "خوش آمدید محترمہ۔ کیسے مدد کر سکتا ہوں؟"

خاتون نے مسکرا کر جواب دیا، "میں نے سنا ہے کہ آپ کی دکان کی چائے بہت اچھی ہے۔"

فیضان نے احترام سے سر ہلایا، "جی ضرور۔ ہماری خصوصی چائے آزمائیں گے؟"

خاتون نے ہاں میں سر ہلایا۔ فیضان نے احتیاط سے چائے تیار کی، ہر قدم پر توجہ دی۔ جلال دور کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا، اسے احساس ہو رہا تھا کہ فیضان کی یہ نظم و ضبط والی روش بھی کتنی مؤثر تھی۔

جب خاتون نے چائے پی تو اس کے چہرے پر مسرت کے جذبات تھے۔ "بہت خوب! یہ چائے واقعی لذیذ ہے۔"

فیضان نے شکر یہ ادا کیا، اور خاتون کے جانے کے بعد جلال نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، "تمہیں پتہ ہے، تم بھی کمال کے آدمی ہو۔"

فیضان نے مسکرا کر جواب دیا، "ہم دونوں مل کر ہی کامیاب ہیں۔"

ایک اور واقعہ پیش آیا جب دکان میں چائے کے ایک نئے ذخیرے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ فیضان نے مارکیٹ کا جائزہ لیا، مختلف سپلائرز سے قیمتیں معلوم کیں، اور بہترین سودا تلاش کیا۔ جلال نے اس کام میں اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

مارکیٹ میں جانے کے بعد، فیضان نے ہر دکان سے قیمتیں پوچھیں، معیار چیک کیا، اور حساب کتاب لگایا۔ جلال نے ایک دکاندار سے دوستی کر لی، اسے اپنی دکان کی کہانی سنائی، اور کچھ ہی دیر میں وہ اسے خاص ریٹ پر سامان دینے پر راضی ہو گیا۔

فیضان حیران تھا، "تم نے یہ کیسے کر لیا؟"

جلال نے مسکراتے ہوئے کہا، "دوستی کا کمال ہے۔ جب تم لوگوں سے دل سے ملتے ہو، وہ بھی تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔"

فیضان نے سوچا کہ شاید کاروبار میں انسانی تعلقات بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنا حساب کتاب۔

موسم بدلتے رہے، اور دکان کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ فیضان اور جلال کی دوستی مضبوط ہوتی گئی، اگرچہ ان کے کام کے طریقے اب بھی مختلف تھے۔ ہر روز نئے واقعات پیش آتے، ہر دن نئی کہانیاں بنتیں۔

ایک دن جلال نے دکان میں ایک چھوٹا سا تبدیلی کی۔ اس نے دیوار پر ایک خوبصورت سی پینٹنگ لگا دی، جو اس کے ایک فنکار دوست نے بنائی تھی۔ فیضان جب آیا تو اس نے پینٹنگ کو دیکھا اور مسکرا دیا۔

"یہ کس نے لگائی ہے؟" فیضان نے پوچھا۔

جلال نے فخریہ انداز میں کہا، "میں نے۔ کیا خیال ہے؟"

فیضان نے سر ہلایا، "بہت خوبصورت ہے۔ دکان کو گھر جیسا ماحول مل گیا ہے۔"

جلال خوش ہو گیا، "دیکھا! کبھی کبھار تخلیقی لاپروائی بھی اچھی ہوتی ہے۔"

فیضان نے ہنستے ہوئے کہا، "ہاں، تمہاری یہ لاپروائی ہماری دکان کو خاص بناتی ہے۔"

اسی دوران ایک گاہک داخل ہوا، جو پینٹنگ کو دیکھ کر مسکرا دیا۔ "واہ، یہ پینٹنگ تو بہت خوبصورت ہے۔"

جلال نے فوراً بات چیت شروع کر دی، "جی ہاں، میرے ایک دوست نے بنائی ہے۔ وہ بہت اچھا پینٹ کرتا ہے۔"

گاہک نے چائے کا آرڈر دیا، اور جلال نے ہنستے ہوئے چائے بنائی۔ فیضان نے دیکھا کہ گاہک کی نظریں پینٹنگ پر ہیں، اور وہ مسکرا رہا ہے۔ اسے احساس ہوا کہ جلال کی یہ چھوٹی سی کوشش نے دکان کے ماحول کو کتنا خوشگوار بنا دیا تھا۔

دن ڈھلے، گاہک چلے گئے، اور دکان میں سکون چھا گیا۔ فیضان نے کھاتہ کتاب بند کی، اور جلال نے آخری کپ صاف کیا۔ دونوں دوست دکان کے باہر کرسیوں پر بیٹھے، چائے کے آخری کپ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

جلال نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "کیا خیال ہے فیضان، ہم نے اچھا کام کیا ہے نا؟"

فیضان نے مسکرا کر جواب دیا، "ہاں، ہم نے کیا ہے۔ ہماری مختلف روشیں مل کر ہماری طاقت بن گئی ہیں۔"

جلال نے اپنا کپ اٹھایا، "تو پھر چلو، اپنی کامیابی پر ایک اور چائے پی لیتے ہیں۔"

فیضان نے ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا، اور دونوں دوستوں نے ایک بار پھر چائے کے کپ ٹکرائے۔ ان کی یہ شراکت داری نہ صرف ایک کامیاب کاروبار تھی، بلکہ دوستی کی ایک ایسی مثال تھی جہاں اختلافات نے مل کر ایک خوبصورت ہم آہنگی پیدا کی تھی۔

اسی طرح ہر روز نئے واقعات پیش آتے، ہر دن نئی کہانیاں بنتیں۔ کبھی فیضان کی صفائی پسندی مزاحیہ صورت اختیار کر لیتی، تو کبھی جلال کی لاپرواہی نئے تجربات کا باعث بنتی۔ لیکن ان سب کے باوجود، دونوں دوستوں کی یہ شراکت داری چائے کی دکان کو شہر کا ایک مقبول مقام بنا رہی تھی۔

ایک دن کی بات ہے جب فیضان نے دکان میں ایک نئی قسم کی ڈیلیوری سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ہر چیز کا تفصیلی منصوبہ تیار کیا - علاقے کا انتخاب، وقت کا تعین، اور قیمتوں کا تعین۔ جلال نے اس منصوبے کو سنا تو وہ بہت پرجوش ہو گیا۔

"واہ! یہ تو بہت اچھا خیال ہے۔" جلال نے کہا، "میں خود ڈیلیوری کرنے جاؤں گا۔"

فیضان نے حیرت سے دیکھا، "تم؟ لیکن تمہیں راستے یاد رہتے ہیں نا؟"

جلال نے ہنستے ہوئے کہا، "ارے، میں راستے ڈھونڈ ہی لیتا ہوں۔ تم پریشان مت ہو۔"

پہلے آرڈر کے ساتھ ہی مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ جلال کو راستہ بھول گیا، اور وہ شہر کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔ فیضان کو فون آیا، "ارے فیضان، میں کہاں ہوں؟"

فیضان نے فون پر ہی اسے راستہ سمجھایا، اور آخرکار جلال صحیح جگہ پر پہنچا۔ گاہک نے تاخیر پر ناراضگی ظاہر کی، لیکن جلال کی معصومانہ مسکراہٹ اور معافی نے اس کا دل جیت لیا۔

جب جلال واپس آیا تو فیضان نے کہا، "دیکھا، میں نے کہا تھا نا کہ تمہیں راستے یاد رکھنے چاہئیں۔"

جلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "لیکن دیکھو، گاہک خوش ہو گیا۔ اس نے اگلے ہفتے کے لیے ایک بڑا آرڈر دے دیا ہے۔"

فیضان نے سر ہلایا، "تمہاری باتوں کا جواب نہیں ہے۔"

ایک اور واقعہ پیش آیا جب فیضان نے دکان میں ایک نئی قسم کی چائے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ہر جزو کو احتیاط سے چنا، ترکیب کو بار بار آزمایا، اور آخرکار ایک بہترین چائے تیار کی۔ جلال نے اس چائے کو بنانے کا طریقہ سیکھا، لیکن اس نے اپنی طرف سے تھوڑی سی تبدیلی کر دی۔

جب گاہکوں نے نئی چائے آزمائی تو وہ اسے پسند کرنے لگے۔ لیکن ایک گاہک نے کہا، "یہ چائے تو بہت اچھی ہے، لیکن کل والی چائے کا ذائقہ کچھ اور ہی تھا۔"

فیضان نے حیرت سے جلال کی طرف دیکھا، "تم نے ترکیب بدل دی تھی؟"

جلال نے معصومانہ انداز میں کہا، "ہاں، تھوڑا سا اپنا touch دے دیا تھا۔"

فیضان نے پہلے تو ناراضگی محسوس کی، لیکن پھر اسے احساس ہوا کہ درحقیقت گاہکوں کو جلال والی چائے زیادہ پسند آئی تھی۔ اس نے مسکرا کر کہا، "ٹھیک ہے، اگلی بار مجھے بتا دینا۔"

جلال خوش ہو گیا، "بالکل! ہم مل کر بہتر کام کر سکتے ہیں۔"

اسی طرح کے مزاحیہ واقعات روز بروز پیش آتے رہتے۔ کبھی جلال چائے بناتے ہوئے مصالحے بھول جاتا، تو کبھی فیضان کا حساب کتاب اتنا درست ہوتا کہ وہ چائے کے ایک کپ کے لیے بھی رسید تیار کرتا۔ لیکن ان سب کے باوجود، دونوں کی دوستی مضبوط ہوتی گئی۔

ایک سردی کی شام، جب دکان میں گاہکوں کا ہجوم تھا، جلال نے اچانک گانا گانا شروع کر دیا۔ فیضان پہلے تو حیران ہوا، لیکن پھر دیکھا کہ گاہک مسکرا رہے ہیں اور تالیاں بجا رہے ہیں۔ اس نے بھی ہنستے ہوئے کام جاری رکھا۔

جب گاہک چلے گئے تو فیضان نے کہا، "تمہیں پتہ ہے، تم نے آج دکان کا ماحول بہت خوشگوار بنا دیا تھا۔"

جلال نے فخریہ انداز میں کہا، "دیکھا! میری لاپرواہی بھی کبھی کبھار کام آ جاتی ہے۔"

فیضان نے سر ہلایا، "ہاں، تمہاری یہ آزاد روح ہماری دکان کی جان ہے۔"

اسی طرح دن گزرتے گئے، موسم بدلتے رہے، اور چائے کی دکان شہر کا ایک اہم مقام بنتی گئی۔ فیضان اور جلال کی دوستی ان کے کاروبار کی بنیاد تھی، اور ان کے مختلف طریقے مل کر کامیابی کی کنجی تھے۔

ایک دن جلال نے دکان میں ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس نے کچھ گاہکوں کو مدعو کیا، کیک منگوایا، اور سب کو جمع کیا۔ فیضان جب آیا تو وہ حیران رہ گیا۔

"یہ کیا ہے؟" فیضان نے پوچھا۔

جلال نے مسکراتے ہوئے کہا، "آج ہماری دکان کا ایک سال پورا ہو رہا ہے۔"

فیضان کو یاد آیا کہ واقعی آج ہی کے دن انہوں نے دکان کھولی تھی۔ اسے جلال کی اس بات پر حیرت ہوئی کہ وہ لاپرواہ ہونے کے باوجود اس خاص دن کو یاد رکھتا تھا۔

گاہکوں نے مبارکباد دی، کیک کاٹا گیا، اور سب نے مل کر خوشی منائی۔ ایک گاہک نے کہا، "آپ دونوں کی دوستی واقعی قابل رشک ہے۔ آپ کے مختلف ہونے کے باوجود آپ کا کام بہت اچھا ہے۔"

فیضان نے جلال کی طرف دیکھا، اور دونوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی یہ دوستی نہ صرف ان کے لیے، بلکہ ان کے کاروبار کے لیے بھی بہت اہم تھی۔

رات گئے، جب سب چلے گئے، دونوں دوست دکان صاف کر رہے تھے۔ فیضان نے کہا، "تمہیں پتہ ہے جلال، آج میں نے سوچا کہ ہم واقعی اچھے پارٹنر ہیں۔"

جلال نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "ہاں، تم حساب کتاب سنبھالو، میں گاہکوں کو۔ تم صفائی سنبھالو، میں خوشیاں۔"

فیضان نے مسکرا کر کہا، "بالکل! ہم ایک دوسرے کے لیے مکمل ہیں۔"

اسی طرح ان کی یہ شراکت داری چلتی رہی، ہر روز نئے مزاحیہ واقعات کے ساتھ۔ کبھی کبھار چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہوتیں، کبھی کبھار اختلافات ہوتے، لیکن آخرکار سب کچھ ٹھیک ہو جاتا۔

ایک دن فیضان بیمار ہو گیا، اور جلال نے تنہا دکان سنبھالی۔ اس دن ہر چیز بے ترتیب ہو گئی - چائے کا معیار مختلف تھا، حساب کتاب غلط تھا، لیکن گاہک پھر بھی آتے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ جلال کا دل صاف ہے، اور اس کی مسکراہٹ ہر کمی کو پورا کر دیتی ہے۔

جب فیضان واپس آیا تو اس نے دکان کا حال دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا، "تم تنہا دکان نہیں چلا سکتے۔"

جلال نے معصومانہ انداز میں کہا، "لیکن میں نے تو چلا ہی لیا۔ گاہک آتے رہے، چائے بنتی رہی، پیسے آتے رہے۔"

فیضان نے سر ہلایا، "ہاں، لیکن تمہیں پتہ ہے، ہم دونوں مل کر ہی بہتر ہیں۔"

جلال نے مسکرا کر جواب دیا، "بالکل! ہم ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔"

اسی طرح وقت گزرتا گیا، اور چائے کی دکان کی کہانی شہر میں مشہور ہو گئی۔ لوگ دور دور سے اس دکان پر آتے، نہ صرف چائے کے لیے، بلکہ ان دو دوستوں کی محبت اور دوستی کو دیکھنے کے لیے۔

ایک دن ایک اخبار والا آیا، اور اس نے فیضان اور جلال کی کہانی کو اخبار میں چھاپا۔ اس کے بعد تو دکان کی مقبولیت اور بھی بڑھ گئی۔ لوگ حیران تھے کہ کیسے دو مختلف فطرت کے لوگ مل کر اتنا کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں۔

فیضان اور جلال نے اخبار والے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، "ہماری کامیابی کا راز ہماری دوستی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی کمیوں کو سمجھتے ہیں، اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو سراہتے ہیں۔"

اخبار والے نے پوچھا، "آپ کے کام کے طریقے تو بالکل مختلف ہیں، پھر بھی آپ اکٹھے کام کیسے کر لیتے ہیں؟"

جلال نے جواب دیا، "ہماری مختلف روشیں ہی تو ہماری طاقت ہیں۔ فیضان کی منظم روش اور میری آزاد روح مل کر ایک کامل توازن پیدا کرتی ہیں۔"

فیضان نے اضافہ کیا، "اور ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ میں نے جلال سے لوگوں سے بات چیت کرنا سیکھا، اور اس نے مجھ سے نظم و ضبط سیکھا۔"

یہ انٹرویو شائع ہونے کے بعد، دکان میں نئے گاہکوں کا تانتا بندھ گیا۔ سب یہ دیکھنے آتے کہ وہ دو دوست کون ہیں جن کی کہانی اتنی مشہور ہوئی ہے۔

ایک دن ایک بوڑھا آدمی دکان میں آیا، جو شہر کا ایک مشہور تاجر تھا۔ اس نے دونوں دوستوں کو دیکھا اور کہا، "تمہاری کہانی نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ تم نے ثابت کیا ہے کہ دوستی اور ایمانداری سے کاروبار کیا جا سکتا ہے۔"

فیضان اور جلال نے شکر یہ ادا کیا، اور بوڑھے تاجر نے انہیں اپنا تجربہ شیئر کیا۔ اس دن دونوں دوستوں نے بہت کچھ سیکھا۔

اسی طرح چلتے چلتے، دکان کا دوسرا سال بھی پورا ہو گیا۔ اب فیضان اور جلال نے دکان کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوںںے دکان کے ساتھ ایک چھوٹا کمرہ شامل کیا، جہاں لوگ آرام سے بیٹھ کر چائے پی سکتے تھے۔

فیضان نے توسیع کا پورا منصوبہ تیار کیا، ہر چیز کا حساب کتاب لگایا۔ جلال نے نئے کمرے کی سجاوٹ کی ذمہ داری سنبھالی، اس نے خوبصورت پینٹنگز لگائیں، پودے رکھے، اور ماحول کو خوشگوار بنایا۔

جب نئے کمرے کا افتتاح ہوا تو گاہکوں نے اسے بہت پسند کیا۔ اب لوگ گھنٹوں بیٹھتے، چائے پیتے، بات چیت کرتے، اور دکان کے خوشگوار ماحول سے لطف اندوز ہوتے۔

ایک دن جلال نے فیضان سے کہا، "تمہیں پتہ ہے، ہم نے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ ہماری مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔"

فیضان نے مسکرا کر جواب دیا، "ہاں، اور ہم آگے بھی مل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔"

دونوں دوستوں نے ہاتھ ملایا، اور ان کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی یہ شراکت داری نہ صرف ایک کاروبار تھی، بلکہ دوستی کی ایک ایسی مثال تھی جو دوسروں کے لیے مشعل راہ تھی۔

اسی طرح ان کی دکان چلتی رہی، ہر روز نئے واقعات کے ساتھ، ہر دن نئی کہانیوں کے ساتھ۔ فیضان کی صفائی پسندی اور جلال کی لاپرواہی مل کر ایک ایسا امتزاج بناتی تھی جو سب کو متاثر کرتا تھا۔

اور اس طرح یہ کہانی آگے بڑھتی رہی، ایک ایسی دوستوں کی کہانی جو نہ صرف چائے کی دکان چلاتے تھے، بلکہ دوستی اور محبت کا ایک ایسا نمونہ پیش کرتے تھے جو ہر کسی کے لیے قابل تقلید تھا۔