عید کے موقع پر حافظ صاحب کے گھر میں سالانہ خاندانی اجتماع سجا ہوا تھا۔ تین منزلہ حویلی کے وسیع ہال میں ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ بڑے بوڑھے مخمل کے گداؤں پر تکیے لگائے بیٹھے تھے، درمیانی نسل کے لوگ صوفوں پر پھیلے ہوئے تھے، جبکہ نوجوانوں کا ایک ہجوم جدید طرز کے فرنیچر پر ٹیک لگائے ہنسی مذاکرے میں مصروف تھا۔ ہال کے درمیان میں لگے بڑے سے پنکھے کی آواز پرانے زمانے کے قصوں کی طرح مسلسل چل رہی تھی۔ ہر طرف خوشی اور رونق کا سماں تھا۔ بزرگ اپنے انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اور نوجوان اپنی جدید طرز پر۔ دونوں نسلیں ایک ہی چھت کے نیچے جمع تھیں مگر ان کے رہن سہن کے طریقے بالکل مختلف تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وقت کے دو مختلف دور ایک ہی جگہ پر جمع ہو گئے ہوں۔
حافظ صاحب کے چھوٹے بھائی جمیل احمد جو کہ لاہور میں ایک نجی جامعہ میں پڑھاتے ہیں، اپنے بیٹے دانش کے نئے بالوں کے انداز پر تبصرہ کر رہے تھے۔ "یہ بالوں پر یہ کیا لاڈلا پوت ہے؟ لگتا ہے جیسے کسی نے کانٹوں کی باڑ پر روئی کا گولہ رکھ دیا ہو۔" دانش نے بے فکری سے جواب دیا، "ابو یہ تو نیا فیشن ہے، اسے زیریں کٹائی ہلکا پن کہتے ہیں۔" جمیل احمد نے اپنے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "ہمارے زمانے میں تو فیشن یہ تھا کہ بال سنوارنے کے لیے تیل لگایا جاتا تھا، اب تو لگتا ہے جیسے درزی کے پاس جانے کی بجائے لوگ نائی کے پاس چلے جاتے ہیں۔" ان کی اس بات پر ہال میں موجود تمام بزرگ زوردار قہقہے لگا کر ہنس پڑے۔ ہر بزرگ کی آنکھوں میں نئی نسل کے ان فیشنز کو دیکھ کر حیرت اور کچھ حد تک مزاق کا اظہار تھا۔
کچھ دور بیٹھی ہوئی خاندان کی سب سے بزرگ خاتون دادی اماں اپنی پوتی زینب کے جینز کے سوراخوں پر افسوس کا اظہار کر رہی تھیں۔ "بیٹا، کیا تمہارے ابا تمہیں پوری پینٹ نہیں دلا سکتے؟ اگر پیسے کی تنگی ہے تو مجھے بتاؤ، میں اپنے زیور بیچ کر تمہارے لیے نئی پینٹیں لا دوں گی۔" زینب نے پیار سے دادی اماں کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، "دادی اماں یہ تو اسٹائل ہے، جان بوجھ کر ایسے بنایا جاتا ہے۔" دادی اماں نے اپنی آنکھوں پر عینک سمائی اور قریب سے جینز کے سوراخوں کو دیکھا، "ارے اللہ! کس قدر عجیب زمانہ آ گیا ہے۔ ہمارے زمانے میں تو ہم پھٹے کپڑے سی کر پہنتے تھے، آج کل کے بچے اچھے خاصے کپڑے پھاڑ کر پہنتے ہیں۔" انہوں نے اپنے پاس بیٹھی ایک اور بزرگ خاتون سے کہا، "سکینہ، دیکھو تو سہی آج کل کے بچوں کے عجیب و غریب فیشن۔"
ایک کونے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسمارٹ فونز پر مصروف تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے خودی کی کہانی سنانے کا فیصلہ کیا۔ جب اس نے اپنا فون اٹھا کر تصویر کھینچنی چاہی تو اچانک حافظ صاحب کے بڑے بھائی غلام رسول نے جو کہ ریٹائرڈ استاد تھے، آواز دی، "ارے بھئی، یہ کیا چھوٹا سا آلہ ہے جسے تم سب نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے؟ کیا یہ جدید قسم کا ریڈیو ہے؟" تمام نوجوان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے۔ ان میں سے ایک لڑکی نے نرمی سے سمجھایا، "چچا جان یہ موبائل فون ہے، اس پر ہم بات چیت کرتے ہیں، تصویریں کھینچتے ہیں اور دنیا بھر کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔" غلام رسول نے حیرت سے کہا، "واہ! تو یہ وہی جدید ایجاد ہے جس کا ذکر اخباروں میں پڑھتا ہوں۔ ہمارے زمانے میں تو ڈاکیا خط لے کر آیا کرتا تھا۔"
کھانے کے وقت جب تمام خاندان ایک بڑی میز پر جمع ہوا تو مزید دلچسپ واقعات پیش آئے۔ نئی نسل کے کچھ افراد ویگن کھانے کی بات کر رہے تھے جبکہ بزرگوں کے لیے یہ بالکل نئی اصطلاح تھی۔ حافظ صاحب کی اہلیہ نے پوچھا، "ویگن کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ کوئی نئی سبزی ہے؟" ایک نوجوان لڑکے نے بتایا، "نہیں خالہ جان، ویگن کا مطلب ہے صرف نباتات پر مشتمل کھانا، جس میں گوشت، انڈے یا دودھ شامل نہ ہو۔" یہ سن کر ایک بزرگ نے کہا، "پھر تو تم لوگ گائے بھینسوں جیسا کھانا کھاتے ہو۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گوشت اور حلوہ پوری چھوڑ کر صرف سبزیاں کیوں کھائی جائیں۔"
رات گئے جب سب لوگ روانہ ہونے لگے تو حافظ صاحب نے ایک مختصر خطاب کیا۔ انہوں نے کہا، "آج ہم نے دیکھا کہ پرانی اور نئی نسل کے درمیان کس قدر فرق ہے۔ مگر یہ فرق ہمیں تقسیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے بزرگ اپنے قیمتی تجربات سے ہمیں مستفید کریں اور نوجوان اپنی نئی معلومات سے ہمارے دائرہ کار کو وسیع کریں۔" ان کی اس بات پر سب نے سر تسلیم خم کیا اور ایک دوسرے سے گلے ملے۔ یہ خاندانی اجتماع اگرچہ مختلف النوع ثقافتی تصادم کا منظر بنا رہا، مگر آخر کار محبت اور باہمی تفہیم پر منتج ہوا۔
اس اجتماع نے ثابت کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ رہن سہن کے طریقے بدل جاتے ہیں، مگر خاندانی اقدار اور باہمی محبت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ نئی نسل کو بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور بزرگوں کو نئی نسل کی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو خاندانوں کو مضبوط بناتا ہے اور نسلوں کے درمیان پل کا کام دیتا ہے۔ آج کا یہ دن ختم ہونے کے باوجود اس نے سب کے دلوں میں ایک خوبصورت پیغام چھوڑا ہے کہ تبدیلی فطری ہے مگر روابط اٹوٹ ہیں۔
عید کے موقع پر حافظ صاحب کے گھر میں سالانہ خاندانی اجتماع سجا ہوا تھا۔ تین منزلہ حویلی کے وسیع ہال میں ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ بڑے بوڑھے مخمل کے گداؤں پر تکیے لگائے بیٹھے تھے، درمیانی نسل کے لوگ صوفوں پر پھیلے ہوئے تھے، جبکہ نوجوانوں کا ایک ہجوم جدید طرز کے فرنیچر پر ٹیک لگائے ہنسی مذاکرے میں مصروف تھا۔ ہال کے درمیان میں لگے بڑے سے پنکھے کی آواز پرانے زمانے کے قصوں کی طرح مسلسل چل رہی تھی۔ ہر طرف خوشی اور رونق کا سماں تھا۔ بزرگ اپنے انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اور نوجوان اپنی جدید طرز پر۔ دونوں نسلیں ایک ہی چھت کے نیچے جمع تھیں مگر ان کے رہن سہن کے طریقے بالکل مختلف تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وقت کے دو مختلف دور ایک ہی جگہ پر جمع ہو گئے ہوں۔
حافظ صاحب کے چھوٹے بھائی جمیل احمد جو کہ لاہور میں ایک نجی جامعہ میں پڑھاتے ہیں، اپنے بیٹے دانش کے نئے بالوں کے انداز پر تبصرہ کر رہے تھے۔ "یہ بالوں پر یہ کیا لاڈلا پوت ہے؟ لگتا ہے جیسے کسی نے کانٹوں کی باڑ پر روئی کا گولہ رکھ دیا ہو۔" دانش نے بے فکری سے جواب دیا، "ابو یہ تو نیا فیشن ہے، اسے زیریں کٹائی ہلکا پن کہتے ہیں۔" جمیل احمد نے اپنے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "ہمارے زمانے میں تو فیشن یہ تھا کہ بال سنوارنے کے لیے تیل لگایا جاتا تھا، اب تو لگتا ہے جیسے درزی کے پاس جانے کی بجائے لوگ نائی کے پاس چلے جاتے ہیں۔" ان کی اس بات پر ہال میں موجود تمام بزرگ زوردار قہقہے لگا کر ہنس پڑے۔ ہر بزرگ کی آنکھوں میں نئی نسل کے ان فیشنز کو دیکھ کر حیرت اور کچھ حد تک مزاق کا اظہار تھا۔
کچھ دور بیٹھی ہوئی خاندان کی سب سے بزرگ خاتون دادی اماں اپنی پوتی زینب کے جینز کے سوراخوں پر افسوس کا اظہار کر رہی تھیں۔ "بیٹا، کیا تمہارے ابا تمہیں پوری پینٹ نہیں دلا سکتے؟ اگر پیسے کی تنگی ہے تو مجھے بتاؤ، میں اپنے زیور بیچ کر تمہارے لیے نئی پینٹیں لا دوں گی۔" زینب نے پیار سے دادی اماں کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، "دادی اماں یہ تو اسٹائل ہے، جان بوجھ کر ایسے بنایا جاتا ہے۔" دادی اماں نے اپنی آنکھوں پر عینک سمائی اور قریب سے جینز کے سوراخوں کو دیکھا، "ارے اللہ! کس قدر عجیب زمانہ آ گیا ہے۔ ہمارے زمانے میں تو ہم پھٹے کپڑے سی کر پہنتے تھے، آج کل کے بچے اچھے خاصے کپڑے پھاڑ کر پہنتے ہیں۔" انہوں نے اپنے پاس بیٹھی ایک اور بزرگ خاتون سے کہا، "سکینہ، دیکھو تو سہی آج کل کے بچوں کے عجیب و غریب فیشن۔"
ایک کونے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسمارٹ فونز پر مصروف تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے خودی کی کہانی سنانے کا فیصلہ کیا۔ جب اس نے اپنا فون اٹھا کر تصویر کھینچنی چاہی تو اچانک حافظ صاحب کے بڑے بھائی غلام رسول نے جو کہ ریٹائرڈ استاد تھے، آواز دی، "ارے بھئی، یہ کیا چھوٹا سا آلہ ہے جسے تم سب نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے؟ کیا یہ جدید قسم کا ریڈیو ہے؟" تمام نوجوان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے۔ ان میں سے ایک لڑکی نے نرمی سے سمجھایا، "چچا جان یہ موبائل فون ہے، اس پر ہم بات چیت کرتے ہیں، تصویریں کھینچتے ہیں اور دنیا بھر کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔" غلام رسول نے حیرت سے کہا، "واہ! تو یہ وہی جدید ایجاد ہے جس کا ذکر اخباروں میں پڑھتا ہوں۔ ہمارے زمانے میں تو ڈاکیا خط لے کر آیا کرتا تھا۔"
کھانے کے وقت جب تمام خاندان ایک بڑی میز پر جمع ہوا تو مزید دلچسپ واقعات پیش آئے۔ نئی نسل کے کچھ افراد ویگن کھانے کی بات کر رہے تھے جبکہ بزرگوں کے لیے یہ بالکل نئی اصطلاح تھی۔ حافظ صاحب کی اہلیہ نے پوچھا، "ویگن کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ کوئی نئی سبزی ہے؟" ایک نوجوان لڑکے نے بتایا، "نہیں خالہ جان، ویگن کا مطلب ہے صرف نباتات پر مشتمل کھانا، جس میں گوشت، انڈے یا دودھ شامل نہ ہو۔" یہ سن کر ایک بزرگ نے کہا، "پھر تو تم لوگ گائے بھینسوں جیسا کھانا کھاتے ہو۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گوشت اور حلوہ پوری چھوڑ کر صرف سبزیاں کیوں کھائی جائیں۔"
رات گئے جب سب لوگ روانہ ہونے لگے تو حافظ صاحب نے ایک مختصر خطاب کیا۔ انہوں نے کہا، "آج ہم نے دیکھا کہ پرانی اور نئی نسل کے درمیان کس قدر فرق ہے۔ مگر یہ فرق ہمیں تقسیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے بزرگ اپنے قیمتی تجربات سے ہمیں مستفید کریں اور نوجوان اپنی نئی معلومات سے ہمارے دائرہ کار کو وسیع کریں۔" ان کی اس بات پر سب نے سر تسلیم خم کیا اور ایک دوسرے سے گلے ملے۔ یہ خاندانی اجتماع اگرچہ مختلف النوع ثقافتی تصادم کا منظر بنا رہا، مگر آخر کار محبت اور باہمی تفہیم پر منتج ہوا۔
اس اجتماع نے ثابت کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ رہن سہن کے طریقے بدل جاتے ہیں، مگر خاندانی اقدار اور باہمی محبت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ نئی نسل کو بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور بزرگوں کو نئی نسل کی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو خاندانوں کو مضبوط بناتا ہے اور نسلوں کے درمیان پل کا کام دیتا ہے۔ آج کا یہ دن ختم ہونے کے باوجود اس نے سب کے دلوں میں ایک خوبصورت پیغام چھوڑا ہے کہ تبدیلی فطری ہے مگر روابط اٹوٹ ہیں۔
کیا آپ کے خاندان کی بھی کوئی ایسی مزاحیہ کہانی ہے؟ ہم سے رابطہ کریں اور اپنی کہانی شیئر کریں تاکہ ہم اسے 'کہانی گھر' میں شائع کریں!