کہانی گھر

بھیس بدل کر ملاقات

عارف اپنے کمرے میں کھڑا آئینے کے سامنے اپنے نئے روپ پر نظر ڈال رہا تھا۔ اس نے ایک لمبی سی سفید داڑھی لگائی ہوئی تھی، سر پر ٹوپی سجائی تھی، اور آنکھوں پر موٹے شیشوں والا چشمہ پہنا ہوا تھا۔ یہ سب کچھ وہ ثنا کو حیران کرنے کے لیے کر رہا تھا، جو اسے چھ ماہ سے چائے کی دکان پر ملتی تھی۔ دونوں کے درمیان کبھی کبھار ہلکی پھلکی بات چیت ہوتی رہتی تھی، مگر عارف اسے اپنے جذبے کا اظہار کرنے سے ہمیشہ گھبرایا کرتا تھا۔ آج اس نے طے کیا تھا کہ وہ ایک نئے روپ میں ثنا کے سامنے پیش ہوگا اور دیکھے گا کہ وہ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔

ثنا کی پسندیدہ چائے کی دکان پر پہنچ کر عارف کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے دکان کے شیشے کے دروازے سے اندر جھانکا تو ثنا اپنی معمول کی جگہ پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ عارف نے گہری سانس لی اور دکان میں داخل ہوا۔ اس نے اپنی آواز کو بھاری اور پراسرار انداز میں بدلا ہوا تھا۔ "کیا آپ کو اعتراض ہوگا اگر میں آپ کی میز پر بیٹھ جاؤں؟ دکان میں تمام میزیں بھری ہوئی ہیں۔" ثنا نے کتاب سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا، پل بھر کے لیے توقف کیا، پھر مسکرا کر کہا، "بالکل نہیں، ضرور بیٹھیں۔"

عارف نے میز پر بیٹھتے ہوئے اپنا بھیس برقرار رکھا۔ اس نے اپنے آپ کو "پروفیسر قدیر" کے نام سے متعارف کرایا، اور ثنا سے کہا کہ وہ شہر کا دورہ کر رہے ہیں۔ ثنا نے دلچسپی دکھائی اور ان سے بات چیت شروع کر دی۔ عارف کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ثنا اسے پہچانتی تک نہیں تھی، اور وہ اس نئے روپ میں اس سے کھل کر بات کر رہی تھی۔ وہ اسے اپنے خوابوں، خواہشوں، اور یہاں تک کہ اپنی پسند ناپسند کے بارے میں بھی بتا رہی تھی، چیزیں جو وہ عام طور پر عارف سے کبھی نہیں کہتی تھی۔

کچھ دیر بعد جب چائے کا آرڈر دیا گیا تو عارف سے ایک حادثہ ہو گیا۔ وہ چائے کا کپ اٹھا رہا تھا کہ اس کا مصنوعی چشمہ گر کر میز پر آ گیا۔ ثنا نے فوراً چشمہ اٹھا کر اسے دیتے ہوئے کہا، "پروفیسر صاحب، آپ کا چشمہ۔" عارف نے گھبراہٹ میں چشمہ واپس لے لیا، مگر اسے لگاتے ہوئے اس کی مصنوعی داڑھی ہلکی سی اکھڑ گئی۔ اس نے فوراً ہی داڑھی کو درست کر لیا، مگر ثنا کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ "پروفیسر صاحب، کیا آپ کے چہرے پر کچھ ہوا ہے؟" ثنا نے پوچھا۔ عارف نے جھٹ سے جواب دیا، "نہیں نہیں، بس تھوڑی سی تکلیف ہو رہی تھی۔"

بات چیت جاری رہی اور عارف اپنے آپ کو ثنا کی دلچسپی کے موضوعات میں کھو دیا۔ وہ اس کی ذہانت اور حس مزاح سے اتنا متاثر ہوا کہ وہ اپنا بھیس برقرار رکھنا تقریباً بھول ہی گیا۔ اچانک دکان کا پنکھا تیز ہو گیا اور عارف کی ٹوپی اڑ کر میز پر جا گرے۔ جب وہ ٹوپی اٹھانے کے لیے جھکا تو اس کی مصنوعی داڑھی مکمل طور پر اکھڑ کر میز پر آ گری۔ عارف نے حیران ہو کر داڑھی کو دیکھا، پھر ثنا کی طرف دیکھا جو حیرت سے اس کا منہ تکتے ہوئے اس کے اصلی چہرے کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔

ثنا کی آنکھیں چوڑی ہو گئیں جب اسے احساس ہوا کہ یہ "پروفیسر قدیر" درحقیقت عارف تھا جو روزانہ اسے چائے کی دکان پر ملتا تھا۔ پہلے تو وہ خاموش رہی، پھر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ "تو یہ تھی بات۔" ثنا نے نرمی سے کہا۔ عارف شرمندہ ہو کر میز پر نظر جمائے بیٹھا رہا۔ "میں... میں معافی چاہتا ہوں ثنا۔ میں نے صرف یہ دیکھنا چاہا تھا کہ..." ثنا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، "تم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میں تمہارے بارے میں کیا سوچتی ہوں؟" عارف نے شرماتے ہوئے سر ہلایا۔

ثنا نے عارف کی طرف دیکھا، پھر میز پر پڑی مصنوعی داڑھی کو اٹھایا۔ "تمہیں پتہ ہے، تمہاری یہ داڑھی تمہارے اصلی چہرے سے کہیں زیادہ دلچسپ لگ رہی تھی۔" یہ کہہ کر وہ زور سے ہنس پڑے۔ عارف نے بھی ہنستے ہوئے کہا، "تم ساری بات جانتے ہوئے بھی مجھ سے بات کرتی رہیں؟" ثنا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "ہاں، کیونکہ تمہارا یہ بھیس تمہیں کھل کر بات کرنے دے رہا تھا۔ تمہیں پتہ ہے، میں نے آج تمہیں پہلی بار واقعی جانا ہے۔"

اس کے بعد دونوں نے کئی گھنٹے بات چیت کی، اب بغیر کسی بھیس کے۔ عارف نے ثنا کو بتایا کہ وہ کس طرح ہر روز چائے کی دکان پر اسے دیکھنے آیا کرتا تھا، اور کس طرح وہ اس سے بات کرنے سے ہمیشہ گھبراتا تھا۔ ثنا نے اعتراف کیا کہ اسے عارف کی موجودگی پسند تھی، مگر وہ اس کی جرات نہ ہونے پر مایوس رہتی تھی۔ جب وہ رات کو دکان سے باہر نکلے تو عارف نے حقیقی زندگی میں پہلی بار ثنا کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ ثنا نے مسکراتے ہوئے کहا، "اگلی بار بھیس بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہارا اصلی روپ کافی خوبصورت ہے۔"

یہ واقعہ دونوں کے درمیان ایک نئے رشتے کا آغاز ثابت ہوا۔ عارف نے سیکھا کہ اصلیت ہمیشہ بہترین ہوتی ہے، اور ثنا نے جانا کہ بعض اوقات محبت حیرت انگیز طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور چائے کی دکان والے ان کے اس واقعے کو آج بھی ایک مزاحیہ یاد کے طور پر یاد کرتے ہیں، جب ایک لڑکے نے اپنی محبت کو حاصل کرنے کے لیے بھیس بدلا تھا، اور اس بھیس نے درحقیقت اسے اپنے اصلی روپ میں سامنے آنے کا موقع دیا تھا۔

کیا آپ کی بھی کوئی ایسی شرارتی یا مزاحیہ کہانی ہے؟ ہم سے رابطہ کریں اور اپنی کہانی شیئر کریں تاکہ ہم اسے 'کہانی گھر' میں شائع کریں!