احمد کے گھر میں ٹی وی کا صرف ایک ریموٹ تھا جو پورے خاندان کے لیے جنگ عظیم کا سبب بنا ہوا تھا۔ ہر شام جب سب لوگ کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچتے تو ٹی وی کے سامنے ایک خاموش جنگ چھڑ جاتی۔ احمد کے والد چاہتے تھے کہ خبریں دیکھی جائیں، ان کی والدہ ڈرامے دیکھنا پسند کرتی تھیں، احمد کی بیوی کو گیم شوز سے دلچسپی تھی، جبکہ احمد خود کرکٹ میچ دیکھنے کا شوقین تھا۔ اس جنگ میں سب سے چالاک احمد کا چھوٹا بھائی کاشف تھا جو ہمیشہ کسی نہ کسی طرح ریموٹ پر قبضہ جمائے رکھتا۔
ایک شام جب احمد گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کا چھوٹا بھائی کاشف صوفے پر دراز ہو کر کارٹون دیکھ رہا ہے۔ احمد نے چالاکی سے کہا، "کاشف، امی نے تمہیں کچن میں بلایا ہے۔" کاشف بے شک چھوٹا تھا مگر اس جنگ میں ماہر تھا۔ اس نے بغیر ہلے دئے جواب دیا، "تم ہمیشہ یہی جھوٹ بولتے ہو۔ اگر امی نے بلایا ہوتا تو وہ خود آواز دیتیں۔" احمد نے دوسری چال چلی، "ٹھیک ہے، میں تمہیں آئس کریم دلاتا ہوں اگر تم مجھے ریموٹ دو۔" کاشف نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا، "آئس کریم تو میں خود خرید سکتا ہوں، تمہاری پاکٹ منی سے۔"
ادھر احمد کی والدہ نے اپنی حکمت عملی شروع کی۔ انہوں نے کاشف کو پیار سے بلایا، "بیٹا کاشف، ذرا میرا ہاتھ پکڑ کر کمرے تک چلو، میرا پیر دکھ رہا ہے۔" کاشف نے فوراً جواب دیا، "امی، آپ کا عصا آپ کے بستر کے پاس ہی ہے۔" جب یہ چال نہ چلی تو والدہ صاحبہ نے ڈرامے کی آواز اتنی زور سے بڑھا دی کہ پورے گھر میں شور مچ گیا۔ احمد کے والد نے کمرے سے چیخ کر کہا، "کون ہے جو ٹی وی اتنی زور سے چلا رہا ہے؟"
احمد کی بیوی ثناء نے اپنی باری میں ایک نئی چال چلی۔ اس نے کاشف کے کان میں کہا، "تمہارا پسندیدہ کارٹون اب تو ختم ہو گیا ہے۔ اب تو بس اشتہار آ رہے ہیں۔" کاشف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "بھابھی، میں نے اشتہاروں کا وقت دیکھ رکھا ہے۔ ابھی پانچ منٹ باقی ہیں۔" ثناء نے ہار نہ مانی اور ٹی وی کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی، مگر کاشف نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے ٹی وی دیکھنا جاری رکھا۔
احمد کے والد جنہیں خبریں دیکھنے کی عادت تھی، نے آخری حربہ استعمال کیا۔ انہوں نے مین سوئچ بند کر دیا۔ پورے گھر میں اندھیرا چھا گیا۔ کاشف نے چیخ کر کہا، "ابو! یہ آپ نے کیا کیا؟" احمد کے والد نے کہا، "بیٹا، بجلی کا بل بہت آ رہا ہے، ہمیں بچانا ہوگا۔" جب بجلی واپس آئی تو سب نے دیکھا کہ ریموٹ غائب تھا۔ ہر شخص دوسرے پر شبہ کر رہا تھا۔ احمد کی والدہ نے کہا، "شاید ریموٹ صوفے کے نیچے گر گیا ہو۔" سب نے مل کر صوفہ اٹھایا مگر ریموٹ نہ ملا۔
تھوڑی دیر بعد جب سب مایوس ہو کر اپنے اپنے کمرے چلے گئے تو کاشف نے خاموشی سے اپنے تکیے کے نیچے سے ریموٹ نکالا اور ٹی وی آن کیا۔ مگر اس بار اس نے کارٹون کی بجائے سب کی پسند کے مطابق پروگرام منتخب کیا۔ پہلے اس نے اپنے والد کے لیے خبریں لگائیں، پھر والدہ کے لیے ڈراما، بھائی کے لیے کرکٹ اور بھابھی کے لیے گیم شو۔ جب سب لوگ ٹی وی کی آواز سن کر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کاشف ہر پندرہ منٹ بعد چینل بدل رہا تھا تاکہ سب کی پسند کا پروگرام دیکھا جا سکے۔
احمد نے حیرت سے پوچھا، "کاشف، تم یہ کیا کر رہے ہو؟" کاشف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "آج میں نے سیکھا کہ اگر ہم سب مل کر ایک دوسرے کی پسند کا خیال رکھیں تو یہ ریموٹ جنگ کا نہیں بلکہ محبت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔" یہ سن کر سب کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ احمد کے والد نے کہا، "آج سے ہم ایک نظام بنائیں گے۔ ہر شخص کو ایک گھنٹہ اس کی پسند کا پروگرام دیکھنے کا موقع ملے گا۔"
اس دن کے بعد سے ٹی وی ریموٹ کی جنگ ختم ہو گئی۔ ہر شخص باری باری اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھتا اور دوسروں کا خیال رکھتا۔ کاشف کی اس چھوٹی سی کوشش نے پورے گھر کے ماحول کو بدل دیا۔ اب ٹی وی دیکھنا خاندانی محفل بن گیا جہاں سب مل بیٹھتے اور ایک دوسرے کے پروگرامز میں دلچسپی لیتے۔ احمد کی والدہ نے تو ایک دن کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے کہا، "ارے واہ! یہ تو بہت دلچسپ کھیل ہے۔"
اور اس طرح ایک چھوٹے سے ریموٹ نے نہ صرف انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بنایا بلکہ خاندان کے افراد کے درمیان محبت اور باہمی تفہیم کا پل بھی تعمیر کیا۔ آج بھی جب وہ ریموٹ دیکھتے ہیں تو انہیں اس جنگ کی یاد آتی ہے جو درحقیقت ان کی محبت کی فتح ثابت ہوئی۔
کیا آپ کے گھر میں بھی ایسی کوئی مزاحیہ جنگ ہوتی ہے؟ ہم سے رابطہ کریں اور اپنی کہانی شیئر کریں تاکہ ہم اسے 'کہانی گھر' میں شائع کریں!