کہانی گھر

دیہات سے آیا مہمان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فیملی کے سب افراد اپنی اپنی مصروفیات میں مگن تھے کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے چچا جان کھڑے تھے۔ ان کے کندھے پر ایک بڑا سا تھیلا تھا، ہاتھ میں لکڑی کا ڈنڈا تھا، اور پاؤں میں کھڑائیاں پہن رکھی تھیں۔ ان کے پیچھے ایک بکری بندھی ہوئی تھی جو مسکرا رہی تھی۔ چچا جان نے زوردار آواز میں کہا، "السلام علیکم بھتیجے! دیکھو تمہارے چچا تمہارے گھر آئے ہیں۔"

گھر کے مالک ریاض نے حیران نظروں سے چچا جان اور ان کی بکری کو دیکھا۔ "چچا جان... یہ بکری؟" چچا جان نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "ارے یہ تو تمہاری چچی نے تازہ دودھ کے لیے بھیجا ہے۔ شہر کی بکریوں کا دودھ کہاں، ہماری گاؤں والی بکری کا دودھ الگ ہی ہوتا ہے۔" یہ کہہ کر انہوں نے بکری کو گھر کے اندر کھینچ لیا۔ بکری نے فوراً قالین پر جا کر بیٹھنے کی کوشش کی۔

چچا جان نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنا تھیلا کھولا اور اس میں سے تازہ سبزیاں، انڈے، اور کچھ عجیب سی جڑیں نکالیں۔ "دیکھو بھتیجے، یہ سب کچھ میں نے تمہارے لیے ہی لایا ہوں۔ یہ ہیں جنگلی پالک، یہ ہے ساگ، اور یہ ہے خاص قسم کی جڑی بوٹی جو کھانسی کے لیے مفید ہے۔" انہوں نے یہ سب چیزیں صوفے پر پھیلا دیں۔ ریاض کی بیوی ثناء کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا جو ان سب چیزوں کو صوفے پر پھیلتا دیکھ رہی تھی۔

رات کے کھانے کا وقت آیا تو چچا جان نے کہا، "ارے بھئی، یہ چمچ کاٹے سے کھانا کیسے کھائیں؟ ہاتھ سے کھانا ہی اصل کھانا ہے۔" یہ کہہ کر انہوں نے برتن میں ہاتھ ڈالا اور زور زور سے کھانا کھانے لگے۔ ان کی آواز سن کر ریاض کے بچے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ چچا جان نے مسکراتے ہوئے کہا، "کھانا ایسے کھاؤ گے تو ذائقہ ہی الگ آئے گا۔"

اگلے دن صبح سویرے چچا جان نے اٹھتے ہی گھر کے صحن میں ورزش شروع کر دی۔ وہ زور زور سے آوازیں نکال رہے تھے اور عجیب و غریب حرکتیں کر رہے تھے۔ پڑوسی کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے۔ جب ریاض نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو چچا جان بولا، "بیٹا، یہ تو ہماری پرانی دیہاتی ورزش ہے۔ اس سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور خون کی گردش درست رہتی ہے۔"

چچا جان نے گھر کی جدید سہولیات کو استعمال کرنے میں بھی عجیب و غریب طریقے اپنائے۔ انہوںے واشنگ مشین میں آلو ڈال دیے، "کیونکہ یہ تو بہت اچھی طرح سے صاف کرے گی۔" جب ریاض نے انہیں سمجھایا کہ یہ مشین کپڑے دھونے کے لیے ہے تو چچا جان نے کہا، "ارے، صفائی کا آلہ ہے تو سب کچھ صاف کر سکتا ہے۔"

ایک دن چچا جان نے گھر کی چھت پر جا کر کپڑے سوکھتے دیکھے۔ انہیں خیال آیا کہ وہاں سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے فوراً ہی مٹی لا کر چھت پر ڈال دی اور اپنے ساتھ لائی ہوئی سبزیوں کے بیج بونے شروع کر دیے۔ جب ریاض نے یہ منظر دیکھا تو وہ حیران رہ گیا۔ چچا جان نے کہا، "بیٹا، شہر میں تازہ سبزیاں مہنگی ملتی ہیں۔ میں تمہارے لیے یہاں پر ہی سبزیاں اگا دوں گا۔"

چچا جان کی بکری نے تو گھر میں داخل ہوتے ہی ہلچل مچا دی۔ وہ کبھی کچن میں چلی جاتی، کبھی کمرے میں، اور کبھی باتھ روم میں۔ ایک دن اس نے ریاض کے بیڈروم میں جا کر گدے پر سو جانا تھا۔ جب ریاض نے چچا جان سے شکایت کی تو وہ بولے، "ارے یہ تو تمہاری بکری ہے۔ اسے تمہارا گھر پسند آ گیا ہے۔"

چچا جان نے گھر کے تمام جدید آلات کے استعمال میں دلچسپی لی۔ انہوںے مائیکرو ویو میں اپنے جوتے سکھانے کی کوشش کی کیونکہ "یہ تو گرم ہوا دیتا ہے نا۔" جب ثناء نے انہیں روکا تو وہ بولے، "بیٹی، ہمارے دیہات میں تو ہم جوتے دھوپ میں سکھاتے ہیں، یہ تو ویسے ہی ہے۔"

ایک شام جب ریاض کے دوست گھر آئے ہوئے تھے، چچا جان نے ان کے سامنے ہی گھر کے فرش پر دری بچھا کر سو جانا تھا۔ جب ریاض نے انہیں اٹھانے کی کوشش کی تو وہ بولے، "بیٹا، یہ قالین تو بہت نرم ہے۔ ہم دیہات میں کھٹولے پر سوتے ہیں، اس سے تو یہ بہتر ہے۔"

چچا جان کی ان عجیب و غریب حرکات سے پورا گھر پریشان تھا۔ لیکن ایک دن جب ریاض کی بیٹی بیمار پڑی تو چچا جان نے اپنی دیہاتی دوائیں استعمال کیں اور اسے تندرست کر دیا۔ انہوںے اپنی لائی ہوئی جڑی بوٹیوں کا قہوہ بنا کر پلایا اور کہا، "یہ ہماری دادی اماں کا نسخہ ہے۔"

چچا جان کے قیام کے آخری دنوں میں ایک عجیب بات ہوئی۔ گھر کے تمام افراد ان کی دیہاتی عادات کے عادی ہو گئے۔ بچے ان سے دیہات کی کہانیاں سنتے، ثناء نے ان سے روایتی پکوان سیکھے، اور ریاض نے محسوس کیا کہ چچا جان کی موجودگی نے ان کے گھر میں ایک نیا رنگ بھر دیا ہے۔

جب چچا جان کے جانے کا وقت آیا تو سب کے آنسو تھے۔ چچا جان نے اپنا تھیلا اٹھایا اور بکری کی رسی تھامی۔ وہ مسکرا کر بولے، "بیٹا، تمہارا گھر تو بہت اچھا ہے لیکن تم لوگ شہر کی مصروفیات میں اپنی روایات بھول گئے ہو۔ میں تمہارے لیے تازہ دودھ اور سبزیاں بھیجتا رہوں گا۔"

چچا جان کے جانے کے بعد گھر میں ایک عجیب سا سکون چھا گیا۔ ریاض کی بیوی نے کہا، "سچ کہوں تو چچا جان کی دیہاتی عادات نے ہمیں سکھایا کہ زندگی کی سادہ خوشیاں ہی حقیقی خوشیاں ہیں۔" ریاض نے مسکراتے ہوئے کہا، "ہاں، اور اب ہم چھت پر اگائی ہوئی سبزیاں کھا رہے ہیں۔"

اور اس طرح دیہات سے آیا ہوا مہمان اگرچہ اپنے عجیب و غریب طریقوں سے سب کو پریشان کرتا رہا، لیکن اس نے خاندان کو زندگی کے اصل لطف سے روشناس کرایا۔ آج بھی جب وہ چھت پر اگائی ہوئی سبزیاں کھاتے ہیں تو انہیں چچا جان کی یاد آتی ہے جو ان کے گھر میں ایک طوفان کی طرح آئے تھے اور چپ چاپ چلے گئے تھے، مگر اپنے پیچھے زندگی کا ایک نیا فلسفہ چھوڑ گئے تھے۔

کیا آپ کے گھر میں بھی کوئی ایسا عجیب و غریب مہمان آیا ہے؟ ہم سے رابطہ کریں اور اپنی کہانی شیئر کریں تاکہ ہم اسے 'کہانی گھر' میں شائع کریں!