شادی کی تقریب میں ہلچل تھی۔ علی نے اپنا بہترین سوٹ پہنا ہوا تھا اور وہ خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ اسے اپنے دوست حامد کی شادی میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ علی نے تقریب میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ سجاوٹ بہت شاندار تھی۔ پورا ہال پھولوں اور روشنیوں سے سجا ہوا تھا۔ علی نے حامد کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔
علی نے فیصلہ کیا کہ وہ پہلے ایک کونے میں بیٹھ کر انتظار کرے گا۔ مگر جیسے ہی وہ آگے بڑھا، ایک بزرگ خاتون نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "ارے دولہا جان! آپ یہاں کھڑے ہیں؟ سب آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔" علی نے حیران ہو کر کہا، "نہیں خالہ جان، میں دولہا نہیں ہوں۔ میں تو..." مگر بزرگ خاتون نے اس کی بات سنے بغیر اسے ہال کے درمیان میں کھینچ لیا۔
اب ایک اور مہمان آیا اور اس نے علی کے گلے میں گجرے ڈال دیے۔ "مبارک ہو دولہا صاحب! اللہ آپ کو خوش رکھے۔" علی نے احتجاج کرنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی ایک اور شخص نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ "بھئی دولہا، تم تو بہت چھپے ہوئے ہو۔ ہم سب تمہیں ڈھونڈ رہے تھے۔"
علی نے واضح کرنے کی کوشش کی، "جناب، میں دولہا نہیں ہوں۔ میں تو حامد کا دوست ہوں۔" مگر اس کی آواز شور میں دب گئی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے اردگرد جمع ہو چکی تھی۔ ہر کوئی اسے مبارکباد دے رہا تھا۔ کچھ لوگ تصویریں کھینچ رہے تھے، کچھ اس کے ساتھ selfies لے رہے تھے۔
اچانک دولہے کی ماں آئیں اور انہوں نے علی کو گلے لگا لیا۔ "بیٹا، تم تو بہت خوبصورت لگ رہے ہو۔ کہاں چھپے ہوئے تھے؟" علی نے گھبرا کر کہا، "خالہ، میں علی ہوں، حامد کا دوست۔" مگر وہ بولیں، "ہاں ہاں، تمہیں شرم آ رہی ہے۔ یہ سب تو ہوتا ہے۔"
اب ایک عجیب صورت حال پیدا ہو گئی۔ لوگ علی کو تحائف دینے لگے۔ ایک شخص نے اسے ایک خوبصورت گھڑی تھمائی۔ دوسرے نے ایک بڑا سا پارسل دیا۔ تیسرے نے پھولوں کا گلدستہ تھمایا۔ علی کے ہاتھ تحائف سے بھر گئے تھے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کرے۔
ادھر اصلی دولہا حامد ہال کے پچھلے حصے میں کھڑا اپنے دوستوں کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہا تھا۔ اسے پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ اس کی جگہ کسی اور کو دولہا سمجھ لیا گیا ہے۔ جب حامد کے کزن نے اسے بتایا کہ لوگ کسی اور کو دولہا سمجھ رہے ہیں تو وہ حیران رہ گیا۔
حامد جلدی سے ہال کے درمیان میں پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا دوست علی تحائف کے ڈھیر میں کھڑا ہے اور لوگ اسے مبارکباد دے رہے ہیں۔ حامد نے بلند آواز میں کہا، "ارے بھئی! یہ تو میری شادی ہے۔ میں دولہا ہوں۔" مگر ایک بزرگ نے کہا، "بیٹا، تمہیں شاید پتہ نہیں، یہ تمہارا بھائی ہے نا؟ وہی تو دولہا ہے۔"
اب دونوں دوست حیران تھے۔ علی نے تحائف واپس کرنے کی کوشش کی مگر لوگوں نے اسے روک دیا۔ "نہیں بیٹا، یہ تو ہماری طرف سے تحفہ ہے۔ تمہیں ہی ملنا چاہیے۔" حامد نے اپنا mobile نکالا اور اپنی تصویر دکھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اصلی دولہا ہے۔
آخرکار دولہے کے والد تشریف لائے۔ انہوں نے صورتحال کو سمجھا اور ہنس پڑے۔ انہوں نے مائیکروفون اٹھایا اور اعلان کیا، "محترم مہمانوں! ایک چھوٹی سی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ یہ جناب علی ہیں، ہمارے دولہا حامد کے دوست۔ اصلی دولہا یہ ہیں۔" انہوں نے حامد کی طرف اشارہ کیا۔
سب لوگ حیران رہ گئے۔ ایک عجیب سا سکون چھا گیا۔ پھر اچانک ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ علی شرمندہ ہو رہا تھا مگر حامد اس کے پاس آیا اور اسے گلے لگا لیا۔ "ارے یار، تم تو آج کے ہیرو بن گئے ہو۔"
لوگوں نے علی سے تحائف واپس لینے کی کوشش کی مگر علی نے کہا، "نہیں، یہ تحافیف تو اب میری شادی کے لیے ہی رہنے دیجیے۔" اس بات پر سب نے دوبارہ قہقہہ لگایا۔
اس واقعے کے بعد تقریب اور بھی رونق دار ہو گئی۔ لوگ اس واقعے کو ہنسی مذاق میں یاد کر رہے تھے۔ علی اور حامد دونوں نے مل کر مہمانوں کا استقبال کیا۔ کچھ مہمان اب بھی غلطی سے علی کو ہی مبارکباد دے دیتے تھے۔
جب کیک کاٹنے کا وقت آیا تو حامد نے علی کو بھی اپنے ساتھ بلایا۔ دونوں دوستوں نے مل کر کیک کاٹا۔ دولہے کے والد نے کہا، "آج تو دو دولہے ہیں ہماری تقریب میں۔"
رات گئے جب تقریب ختم ہوئی تو علی نے تمام تحافیف حامد کے حوالے کیے۔ حامد نے کہا، "نہیں یار، تم ہی رکھو۔ تم نے آج میری طرف سے بہت کام کر لیا۔" دونوں ہنس پڑے۔
اس واقعے نے ثابت کیا کہ غلط فہمیاں بعض اوقات زندگی کو مزے دار بنا دیتی ہیں۔ آج بھی جب وہ لوگ ملتے ہیں تو اس واقعے کو یاد کر کے ہنستے ہیں۔ اور حامد کی شادی کی ویڈیو میں علی کے حصے کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے جب وہ تحائف کے ڈھیر میں کھڑا ہے اور لوگ اسے دولہا سمجھ رہے ہیں۔
یہ واقعہ ان دوستوں کی دوستی کا ایک یادگار باب بن گیا۔ آج بھی جب کسی کی شادی ہوتی ہے تو وہ علی کو مذاق میں کہتے ہیں، "آج پھر کسی کو دولہا سمجھ لیں گے؟" اور سب ہنسی خوشی گزر جاتی ہے۔
کیا آپ کی زندگی میں بھی ایسی کوئی مزاحیہ الجھن ہوئی ہے؟ ہم سے رابطہ کریں اور اپنی کہانی شیئر کریں تاکہ ہم اسے 'کہانی گھر' میں شائع کریں!