فیصل آباد سے مری جانے والے ایک خاندانی سفر پر نکلا تھا سلیم خاندان۔ سلیم صاحب ایک دکان دار تھے، ان کی بیوی رخسانہ ایک گھریلو خاتون، اور ان کے دو بچوں، سہیل (سولہ سال) اور عائشہ (بارہ سال)، کے ساتھ یہ ان کا سالانہ سمر ٹرپ تھا۔ مری کے خوبصورت نظاروں کا مزہ لینے کے لیے وہ سب پرجوش تھے، لیکن بجٹ کم ہونے کی وجہ سے انہوں نے رستے میں ایک سستا ہوٹل، "ہل ویو گیسٹ ہاؤس"، بک کیا۔ سہیل نے فون پر ہوٹل کی دو ستاروں والی ریٹنگ دیکھ کر کہا، "ابو، یہ ہوٹل تو 'وہ عجیب و غریب وراثت' جیسا لگتا ہے!" سلیم صاحب نے ہنستے ہوئے کہا، "بیٹا، بس ایک رات کی بات ہے، کیا ہو جائے گا؟"
ہوٹل پہنچتے ہی انہیں احساس ہوا کہ یہ "ہل ویو" نام کا مذاق ہے۔ عمارت پرانی تھی، دیواریں پیلپا کر رہی تھیں، اور ریسپشن پر بیٹھا منیجر، جمیل بھائی، عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کا استقبال کر رہا تھا۔ رخسانہ نے سرگوشی میں کہا، "سلیم، یہ جگہ تو کسی ہارر فلم کی سیٹ لگتی ہے!" لیکن سلیم صاحب نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، "رخسانہ، بس رات کاٹنی ہے، پریشان نہ ہو۔" کمرہ نمبر 13 میں داخل ہوتے ہی ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا: پنکھا ٹوٹا ہوا تھا، شاور سے پانی بہہ رہا تھا، اور بستر پر چادر ایسی تھی جیسے برسوں سے دھلی نہ ہو۔ عائشہ نے چیخ کر کہا، "ابو، یہ تو جیل سے بھی برا ہے!" لیکن سہیل نے ہنستے ہوئے کہا، "دیکھو، ایڈونچر تو بنتا ہے!"
رات کے آٹھ بجے، جب خاندان کھانا کھا کر کمرے میں واپس آیا، تو پنکھے نے عجیب سی آواز شروع کر دی، جیسے کوئی پرانا ٹریکٹر چل رہا ہو۔ سلیم صاحب نے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اچانک بند ہو گیا۔ گرمی سے تنگ آ کر سہیل نے کھڑکی کھولی، لیکن باہر سے ٹھنڈی ہوا کے بجائے مچھروں کا جھنڈ داخل ہو گیا۔ رخسانہ نے جھنجھلا کر کہا، "سلیم، یہ ہوٹل نہیں، مصیبت خانہ ہے!" شاور سے پانی ٹپک رہا تھا، اور جب عائشہ نے اسے بند کرنے کی کوشش کی، تو پانی کا فوارہ اس کے منہ پر پڑا۔ سہیل ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا اور کہا، "عائشہ، یہ تو واٹر پارک بن گیا!"
رات دس بجے، جب سب سو رہے تھے، کمرے کا فون بج اٹھا۔ سلیم صاحب نے گھبرا کر فون اٹھایا، تو دوسری طرف سے جمیل بھائی کی بھاری آواز آئی، "سلیم صاحب، آپ سب خیریت سے ہیں نا؟ بس رات کو کھڑکی بند رکھیں، یہاں عجیب چیزیں گھومتی ہیں!" سلیم صاحب کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ رخسانہ نے پوچھا، "کیا ہوا؟" سلیم صاحب نے ڈرتے ہوئے کہا، "جمیل بھائی کہہ رہے ہیں کوئی عجیب چیزیں گھومتی ہیں!" عائشہ نے چیخ کر کہا، "ابو، یہ تو بھوتوں والی فلم بن گئی!" سہیل نے ہنستے ہوئے کہا، "اماں، یہ جمیل بھائی ہمیں ڈرا رہے ہیں!" لیکن جب گیارہ بجے دوبارہ فون آیا اور جمیل بھائی نے کہا، "دیکھیں، اگر کوئی عجیب آواز آئے تو ہمیں بتائیں!" تو سب کے دل میں ڈر سما گیا۔
رات بارہ بجے، کمرے کی روشنی اچانک بند ہو گئی۔ سہیل نے اپنے فون کی ٹارچ جلا کر دیکھا تو شاور اب بھی ٹپک رہا تھا، اور پنکھا خود بخود گھوم رہا تھا۔ عائشہ نے کمبل میں منہ چھپا لیا اور کہا، "ابو، ہم گھر چلیں!" رخسانہ نے جمیل بھائی کو فون کیا، لیکن انہوں نے عجیب سی ہنسی کے ساتھ کہا، "بجلی تو بس رات کو تھوڑی دیر جاتی ہے، پریشان نہ ہوں!" سلیم صاحب نے جھنجھلا کر کہا، "یہ ہوٹل تو 'کہانی گھر' کے لیے پرفیکٹ کہانی ہے، لیکن ہم تو مصیبت میں پھنس گئے!" سب رات بھر جاگتے رہے، ہر آہٹ پر چوکنا ہو کر۔
صبح ہوتے ہی سلیم خاندان نے اپنا سامان باندھا اور ہوٹل سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ جمیل بھائی ریسپشن پر ملے اور مسکراتے ہوئے کہا، "کیسی رہی رات؟" سلیم صاحب نے جھنجھلا کر کہا، "جمیل بھائی، آپ کی عجیب کالوں نے ہمیں ساری رات جگایا!" جمیل بھائی ہنس پڑے اور بولے، "ارے، میں تو بس مذاق کر رہا تھا! یہ ہوٹل پرانا ہے، اس لیے لوگوں کو ایڈونچر والا تجربہ دینے کے لیے تھوڑا ڈرامہ کرتا ہوں!" سہیل نے ہنستے ہوئے کہا، "جمیل بھائی، آپ تو بالی ووڈ کے ڈائریکٹر بن سکتے ہیں!" عائشہ نے راحت کی سانس لی اور کہا، "شکر ہے، کوئی بھوت نہیں تھا!"
جمیل بھائی نے معافی مانگتے ہوئے انہیں ناشتے کے لیے بلایا، جہاں انہوں نے گرم گرم پراٹھے اور لسی پیش کی۔ رخسانہ نے ہنستے ہوئے کہا، "جمیل بھائی، آپ کا ہوٹل تو ٹوٹا پھوٹا ہے، لیکن ناشتا کمال کا ہے!" سہیل نے اپنے فون پر رات کی کہانی واٹس ایپ گروپ میں ڈال دی، جو فوراً وائرل ہو گئی۔ گھر واپس آ کر، سلیم صاحب نے اپنے دوست، ناصر، کو ساری کہانی سنائی۔ ناصر نے ہنستے ہوئے کہا، "یہ تو 'کہانی گھر' کے لیے بہترین کہانی ہے!" عائشہ نے کہا، "ہاں، لیکن اگلی بار ہم فائیو اسٹار ہوٹل بک کریں گے!"
اس رات نے سلیم خاندان کو ایک ایسی کہانی دی جو وہ برسوں تک یاد رکھیں گے۔ جمیل بھائی کی شرارتوں اور ہوٹل کی گڑبڑ نے ان کے سفر کو یادگار بنا دیا۔ سہیل نے کہا، "ابو، یہ تو ہمارا اپنا ہارر کم ڈرامہ تھا!" رخسانہ نے ہنستے ہوئے کہا، "ہاں، لیکن اب ہم سب کو ایک دوسرے کی قدر زیادہ ہو گئی!" گھر واپس آ کر، انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگلا سفر پلان کرتے وقت ہوٹل کی ریٹنگ ضرور چیک کریں گے۔
کیا آپ کے سفر میں بھی ایسی کوئی مزاحیہ یا خوفناک گڑبڑ ہوئی ہے؟ ہم سے رابطہ کریں اور اپنی کہانی شیئر کریں تاکہ ہم اسے 'کہانی گھر' میں شائع کریں!