عارف نے پرانے کتب خانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ باہر ایک ٹوکری میں کچھ پرانی کتابیں سستی قیمت پر رکھی ہوئی ہیں۔ اس کی نظر ایک موٹی سی بوسیدہ کتاب پر پڑی جس کے غلاف پر "زمانوں کا سفر" لکھا ہوا تھا۔ کتاب کی قیمت محض پچاس روپے تھی۔ عارف نے کتاب اٹھائی اور اس کے پرانے صفحات پلٹنے لگا۔ کتاب کی بو میں تاریخ بسی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔
گھر پہنچ کر جب عارف نے کتاب کے صفحات الٹائے تو اس کے درمیان سے ایک پرانا کاغذ گر پڑا۔ یہ ایک ہاتھ سے لکھا ہوا خط تھا جس پر ایک نقشہ بنا ہوا تھا۔ نقشے پر ایک جگہ "خزانے کی چابیاں یہاں ہیں" لکھا ہوا تھا۔ عارف کی دلچسپی فوراً بڑھ گئی۔ اس نے خط کو غور سے پڑھا۔ یہ 1947ء میں کسی شخص نے اپنے بیٹے کے نام لکھا تھا جس میں وہ اپنے خزانے کو چھپانے کی بات کر رہا تھا۔
عارف نے نقشے کے مطابق شہر کے پرانے حصے میں واقع ایک ویران حویلی کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔ نقشے میں لکھا تھا کہ خزانہ حویلی کے باغ میں بوڑھے آم کے درخت کے نیچے دبایا گیا ہے۔ عارف بڑی امیدوں کے ساتھ حویلی کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ حویلی کی جگہ پر اب ایک نیا شاپنگ مال بن چکا تھا۔ وہ مال کے سیکورٹی گارڈ کے پاس گیا اور بوڑھے آم کے درخت کے بارے میں پوچھا۔
سیکورٹی گارڈ نے بتایا کہ وہ درخت تو کئی سال پہلے کاٹ دیا گیا تھا، لیکن اس کی لکڑی سے بنی ایک کرسی مال کے مینیجر کے آفس میں موجود ہے۔ عارف مینیجر سے ملنے گیا اور اپنی کہانی سنائی۔ مینیجر نے ہنس کر کہا، "آپ تو تیسرے آدمی ہیں جو اس خزانے کی تلاش میں یہاں آئے ہیں۔" اس نے وہ کرسی دکھائی جو واقعی پرانے درخت کی لکڑی سے بنی ہوئی تھی۔
عارف نے کرسی کی چھان بین شروع کی۔ اچانک اسے کرسی کے نیچے ایک چھوٹا سا رازدانہ خانہ نظر آیا۔ اس میں سے اسے ایک پرانا سکہ ملا جس پر 1947ء کی تاریخ کندہ تھی۔ سکے کے ساتھ ایک اور کاغذ تھا جس پر لکھا تھا، "ابھی تو صرف شروعات ہوئی ہے۔ اصلی خزانہ تو ابھی دور ہے۔" عارف کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی۔
نئے کاغذ میں لکھی ہدایات کے مطابق عارف کو شہر کے وسط میں واقع گرجا گھر کے پاس جانا تھا۔ وہاں پہنچ کر اسے گرجا گھر کی دیوار پر بنے ایک فرشتے کے مجسمے کے نیچے دیکھنا تھا۔ عارف وہاں پہنچا تو دیکھا کہ گرجا گھر کی مرمت کا کام چل رہا تھا۔ مزدوروں نے اسے بتایا کہ فرشتے کا مجسمہ تو کل ہی اتار کر میوزیم بھیج دیا گیا ہے۔
عارف میوزیم پہنچا تو وہاں اسے پتہ چلا کہ مجسمہ ابھی ریسٹوریشن کے لیے بند کمرے میں رکھا ہوا ہے۔ وہ میوزیم کے ڈائریکٹر سے ملا اور اپنی کہانی سنائی۔ ڈائریکٹر نے ہنس کر کہا، "کیا آپ واقعی اس فرشتے کے نیچے چھپے خزانے کی تلاش میں ہیں؟ آپ سے پہلے دو اور لوگ آئے تھے۔" اس نے عارف کو مجسمہ دکھانے کی اجازت دے دی۔
مجسمے کے نیچے عارف کو ایک اور پرانا سکہ اور ایک نوٹ ملا جس پر لکھا تھا، "تم بہت قریب ہو، لیکن ابھی تمہیں سبق سیکھنا باقی ہے۔" عارف اب پوری طرح الجھن کا شکار ہو چکا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ کوئی مذاق ہے یا پھر واقعی کوئی خزانہ چھپا ہوا ہے۔
تیسرے نوٹ میں عارف کو شہر کے قبرستان میں ایک خاص قبر کی طرف ہدایت کی گئی تھی۔ وہ قبرستان پہنچا تو وہاں اسے ایک بوڑھا قبرستان کا محافظ ملا۔ عارف نے اسے اپنی کہانی سنائی۔ بوڑھے نے کہا، "بیٹا، تم سے پہلے بھی کئی لوگ یہاں آئے ہیں۔ یہ سب اس کتاب کا کمال ہے۔" اس نے بتایا کہ یہ کتاب درحقیقت ایک بزرگ مصنف نے لکھی تھی جو لوگوں کی لالچ کو پرکھنا چاہتا تھا۔
عارف مایوس ہو کر گھر واپس آیا۔ اس نے کتاب کو دوبارہ کھولا اور غور سے پڑھنا شروع کیا۔ آخر کار اسے کتاب کے آخری صفحے پر ایک چھوٹا سا پیغام ملا جس پر لکھا تھا، "اگر تم یہاں تک پہنچے ہو تو سمجھ لو کہ حقیقی خزانہ علم ہے، اور تم نے اس سفر میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ تمہاری ہمت اور ثابت قدمی ہی تمہارا اصل خزانہ ہے۔"
عارف نے اس دن سیکھا کہ بعض اوقات سفر کا مقصد منزل نہیں بلکہ سفر کے دوران ملنے والے تجربات ہوتے ہیں۔ اس نے وہ پرانی کتاب اپنے پاس رکھی اور اس کے بعد سے ہر پرانی کتاب کو احترام سے پڑھنے لگا۔ کون جانے شاید کسی اور کتاب میں بھی کوئی ایسی ہی دلچسپ کہانی چھپی ہو۔
اور اس طرح بازار سے خریدی ہوئی ایک پرانی کتاب نے عارف کو ایک ایسے سفر پر لے جایا جس کا مقصد صرف اسے یہ سکھانا تھا کہ علم ہی اصل خزانہ ہے۔ آج بھی جب وہ لوگوں کو پرانی کتابیں پڑھتے دیکھتا ہے تو مسکراتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید ان میں سے کسی کتاب میں بھی کوئی ایسی ہی راز بھری کہانی چھپی ہوئی ہے۔
کیا آپ کی زندگی میں بھی ایسی کوئی ایڈونچر بھری کہانی ہے؟ ہم سے رابطہ کریں اور اپنی کہانی شیئر کریں تاکہ ہم اسے 'کہانی گھر' میں شائع کریں!